کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 410
اور مولانا نے اس میں خلاف کی صراحت فرمائی ہے، اس لیے حیات انبیاء کے لیے سورت بقرہ اور آل عمران کی آیات کو اساسی نہیں قرار دینا چاہیے۔ [1] 6۔ ایسے اوہام کو عقیدہ کہنا بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کتب عقائد (شرح عقائد نسفی، عقیدہ طحاویہ، شرح العقیدۃ الاصفہانیہ، عقیدہ صابونیہ وغیرہ) میں اس کا کوئی ذکر نہیں، حالانکہ کتب عقائدکے سارے مشمولات کے مستقبل عقیدے کی حیثیت بھی محل نظر ہے۔ عقیدے کے لیے حسب تصریح متکلمین اور اشاعرہ و ما تریدیہ قطعی دلائل کی ضرورت ہے۔ حیات انبیاء کی احادیث اسناد کے لحاظ سے اخبار آحادصحیحہ سے بھی فردتر ہیں۔ كما لا يخفي علي من له نظر في فن الرجال 7۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت بعض امہات المؤمنین کی عمر بہت کم تھی۔ خاں صاحب بریلوی نے اہل اللہ کی حیات دنیوی کے ساتھ شب باشی کا راستہ بھی کھول دیا۔ (ملفوظات : 3/36) لاحول ولاقوة الا بالله اکابر دیوبند صرف زندگی کے قائل ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ عقلاً زندگانی کافی ہے، حالانکہ حقوق زوجیت کے لیے صرف حیات کافی نہیں۔ کیا اس قسم کے بھونڈے استدلال سے پرہیز ہی زیادہ مناسب نہ تھا؟ 8۔ موت کی پوری حقیقت تو معلوم نہیں، بظاہر فوت جسم اور روح کے انفصال کا نام ہے جہاں تک ہمیں معلوم ہے، اس پر شریعت نے عدت اور تقسیم ترک کے احکام مرتب فرمائے ہیں۔ اہل سنت موت کے بعد جسم اور روح کے غیر شعوری تعلق کو مانتے ہیں، عدم محض اور کلی فقدان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لیے مولانا محمد زاہد صاحب کے ارشادات کا آخری حصہ بالکل بے ضرورت ہے۔ پاکستان کے اہل توحید انبیاء علیہم السلام کے متعلق موت کی کسی نئی قسم کے قائل نہیں۔
[1] ۔ سورہ البقرۃ، آیت(154)اور سورت آل عمران، آیت (129)کی طرف اشارہ ہے۔