کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 409
فقہاء اور محدثین احناف، شوافع، موالک، حنابلہ رحمہم اللہ سے اس قسم کی صراحت منقول نہیں ہوئی، حضرات دیوبند سے بھی حضرت مولانا حسین علی مرحوم(واں بھجراں)اور ان کے تلامذہ مولوی نصیر الدین صاحب وغیرہ بھی صراحتاً اس کے خلاف ہیں۔ غور و فکر کے لیے چند گزارشات: 1۔ یہ ایسا خیال ہے کہ امت میں گنتی کے دس آدمی بھی نہیں، جو اس کی صراحت کرتے ہوں، اور اسے اجماعی عقیدہ کہنا اہل علم کے لیے مناسب نہیں۔ 2۔ اسے متواتر کہنا بھی صحیح نہیں، کیونکہ تواتر کی کوئی شرط بھی اس میں نہیں پائی جاتی۔ کم ازکم تواتر میں حواس کا ادراک لازمی ہونا چاہیے۔ قرآن جس زندگی کو خارج از شعور فرما رہا ہے، وہاں حواس اوراس کے استعمال اور ادراک کی گنجائش کہاں ہو سکتی ہے؟ 3۔ جس اصلاحی تحریک کے ساتھ تعلق کی بنا پر آپ حضرات کو وہابیت کا سر خاب لگایا گیا، اس کے مزاج میں تو سماع موتی کی بھی گنجائش معلوم نہیں ہوتی۔ حیات دنیوی اس میں کہاں سجے گی؟ مرحوم مولانا حسین علی صاحب (واں بھجراں)اور پوری جماعت اہل حدیث نے کتاب و سنت اور اس مقدس تحریک کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئےان ”الہامی“اوہام کا انکار کردیا ہے ؎ وكنا سلكنا في صعود من الهوى فلما توافينا ثبتُّ وزلّتِ 4۔ خاں صاحب بریلوی اور مولانا حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ نے انبیاء کی حیات کو شہدا کی منصوصی حیات سے ممتاز فرمایا ہے کہ انبیاء کی حیات اقوی ہے، مگر اس طرح شہدا کو مقیس علیہ قراردے کر انبیاء کی حیات کو ثابت کرنا درست نہ ہو گا۔ اقوی کو اضعف پر قیاس کرنااصول کی تصریحات کے خلاف ہے۔ 5۔ انبیاء کے ترکہ کی تقسیم اورنکاح ازواج کی حرمت کی علت اگر واقعی دنیوی زندگی ہےتو اس کا حکم شہدا کی ازواج اور ترکہ کے متعلق بھی وہی ہونا چاہیے۔ خاں صاحب