کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 408
طاهرون، احياء وامواتا، بل لا موت لهم الا آنيا تصديقا للوعد، ثم هم احياء ابداً بحياة حقيقة دنياوية روحانية وجسمانية، كما هو معتقد اهل السنة والجماعة (بريلويه) ولذا لا يورثون، ويمتنع تزوج نساءهم صلوات الله تعاليٰ وسلامه عليهم، بخلاف الشهداء الذين نص الكتاب العزيز انهم احياء، ونهي ان يقال لهم اموات))
(فتاوی رضویة:1/610)[1]
خاں صاحب فرماتے ہیں:
”انبیاء علیہم السلام پر ایک آن کے لیے موت آتی ہے، اس کے بعد روحانی اور جسمانی لحاظ سے ان کو حقیقی زندگی اور ابدی حیات حاصل ہوتی ہے۔ یہ اہل سنت کا عقیدہ ہے( مگر جو اہل سنت ہیں، ان کی کتابوں میں نہیں) اسی لیے ان کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا، ازواج کو نکاح ثانی کی اجازت نہیں، لیکن شہداء کی زندگی اس کے خلاف ہے، ان کا ترکہ بھی تقسیم ہوتا ہے اور بیویاں بھی نکاح کر سکتی ہیں۔ “
اور اس قسم کی صراحت خاں صاحب نے فتاوی رضویہ (ص:611)میں فرمائی ہے۔
دیوبندیوں کی بریلویوں سے ہم نوائی:
مولانا حسین احمد صاحب مرحوم مکاتیب میں فرماتے ہیں:
”آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے، بلکہ جسمانی بھی اور ازقبیل حیات دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر۔ “(1/130)
سنا ہے مولانا نا نوتوی اور بعض اکابر دیوبند بھی اس قسم کی حیات کے قائل تھے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی (1052ھ)نے بھی ”مدارج النبوة“میں حیات دنیوی کا اعتراف کیا ہے۔ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے سبکی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اسی قسم کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ [2]لیکن عام
[1] ۔ فتاوي رضوية (3/403)طبع جديد )
[2] ۔ انباءالاذكياء (ص: 12مطبع مطلع انوار دكن)