کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 407
ہے کہ شہدا اور انبیاء زندہ ہیں۔ برزخ میں وہ عبادات، تسبیح و تہلیل فرماتے ہیں، ان کو رزق بھی ان کے حسب حال اور حسب ضرورت دیا جاتا ہے۔ شہداء کے متعلق حیات کی وضاحت قرآن عزیز میں موجود ہے۔ انبیاء کی زندگی کے متعلق سنت میں شواہد ملتے ہیں۔ صحیح احادیث میں انبیاء علیہم السلام کے متعلق عبادت وغیرہ کا ذکر آتا ہے۔ پاکستان میں جو لوگ توحید کا وعظ کہتے ہیں، وہ عقائد کی اصلاح کے سلسلے میں مہینوں مسلسل سفر کرتے ہیں۔ انبیاء اور شہدا کی برزخی زندگی اور اس زندگی میں مراتب کے تفادت کے قائل ہیں۔ ان لوگوں کا عقیدہ بالکل درست ہے۔ جو شخص قبر میں عذاب یا ثواب کو احادیث نبویہ کی روشنی میں مانتا ہو، وہ ان صلحا کےمتعلق عدم محض و فقدان صرف کا قائل کیوں ہو گا؟ ہاں مراتب یقینی ہے۔ انبیاء کا مقام یقیناً شہداسے اعلیٰ و ارفع ہونا چاہیے۔ بحث اس میں ہے کہ آیا یہ زندگی دنیوی زندگی ہے؟دنیوی زندگی کے لوازم اور تکالیف ان پر عائد ہوتی ہیں؟قبور میں نماز یا تسبیح برزخی طبیعت کا تقاضا ہے یا شرعی تکلیف کا نتیجہ؟جو لوگ دنیوی زندگی کے اس معنی سے قائل ہیں، ان سے واقعی اختلاف اور آئندہ گزارشات میں مولانا انظر اور مولانا محمد زاہد صاحب کے ارشادات کی چھان پھٹک اسی زندگی کے پیش نظر کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کی سلامتی اور مشی سے غیر متاثر ہونا، اس میں بھی اختلاف نہیں۔ غرض جو کچھ کتاب وسنت میں صراحتاً آیا اور صحیح احادیث اس پر ناطق ہیں، اس میں کوئی نزاع نہیں۔ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بریلوی عقیدہ: اس معاملے میں مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی قابل شکریہ ہیں، انھوں نے موضوع کو وضاحت سے سامنے رکھا ہے، دلیل ہو یا نہ ہو، لیکن انھوں نے فرمانے میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی فرماتے ہیں: ((فانهم(الانبياء) صلوات الله تعاليٰ وسلامه عليهم، طيبون