کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 406
کی حالت طاری ہو گئی ہے، اور مولانا محمد اسماعیل شہید قدس الله روحه۔ جیسی ہستی کی بے ادبی کرنے کی سزا ان کو یہ ملی ہے کہ ان کے بزرگوں سے علم سلب کر لیا گیا ہے۔ سمجھداراورعلماء حضرات ان میں کم ہو رہے ہیں۔ جہلا کے ساتھ ربط، عوام کی شورش وشرارت پسندی کے سوا دنیا میں ان کا کوئی سہارا نہیں۔ اہل توحید کی مساجد پر قبضے شرفاء پر قاتلانہ حملے، خانقاہوں کے مجاہدوں کی سفارشوں اور رشوتوں سے مقدمات جیتنا، ان حضرات کا پاکستان میں عمومی مشغلہ ہے، مگر مشترکہ امور میں عوام سے اشتراک، دوسری سٹیجوں سے اور معقولیت سے گفتگو کرنے، افہام و تفہیم اور نزاعی امور میں اصلاح سے عموماً اس جماعت کے اکابر پر ہیز کرتے ہیں۔ احساس کمتری اور لامساس کے مرض میں عموماً یہ لوگ مبتلاہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اصلاح ذات البین کی توفیق مرحمت فرمائے، تاکہ مختلف الخیال جماعتیں مل کر اپنے تنازعات کا منصفانہ فیصلہ کر سکیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ باطنی فرقے کی طرح یہ حضرات فسادات کو سر مایہ حیات سمجھتے ہیں۔ !! محل نزاع: اس موضوع پر امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ سے آج تک جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں محل نزاع کا تعیین نہیں فرمایا گیا۔ امام بیہقی نے ائمہ حدیث کی طرح اس موضوع کے متعلق مواد جمع فرمایا ہے۔ حافظ سیوطی نے ”کتاب الروح“اور ”حیات الانبیاء“سے استفادہ بھی فرمایا ہے اور بعض احادیث کی توجیہات بھی کی ہیں۔ حافظ سیوطی نے کتاب الروح سے تو استفادہ فرمایا ہے، لیکن معلوم نہیں قصیدہ نونیہ کی طرف ان کی توجہ کیوں مبذول نہیں ہوئی؟ حالانکہ قصیدہ نونیہ میں حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے ان موضوع کو بہت زیادہ منقح فرمایا ہے۔ [1] اہل سنت کے دونوں مکاتب فکر : اصحاب الرائے و اہل حدیث کا اس امر پر اتفاق
[1] ۔ اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے۔