کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 405
ان کے مدمقابل جو لوگ تھے، وہ تھے اکابر اولیاء اللہ، وہ جنھوں نے کتاب وسنت کی اشاعت و تبلیغ اور مسلمانوں میں احیائے جہاد میں اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں۔ ظاہر ہے ان مقدس ہستیوں کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد کہاں مل سکتی تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ((مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ))[1] (مشکوۃ) ”یعنی جو شخص میرے اولیاء سے دشمنی رکھے، میرا اس سے اعلان جنگ ہے۔ “ چنانچہ یہ تحریک حق تعالیٰ کے غضب کی گرفت میں آگئی، جس کے نتیجے میں ان میں چند ایسی خصوصیات پیدا ہو گئیں جن کے ہوتے ہوئے ان حضرات کی کامیابی ناممکن ہے۔ وہ خصوصیات مختصراًذیل میں میں معروض ہیں: 1۔ اہل حق اور اتقیاسے بغض۔ 2۔ زبان درازی و بدزبانی۔ 3۔ مسلمانوں کی تکفیر۔ 4۔ بے ضرورت اور بے مقصد مسائل پر زور، مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواب بھی دنیوی زندگی حاصل ہے، وغیرہ۔ 5۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر موجود ہیں۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام اختیارات اور خصائص اپنے بندوں کو دے دیے ہیں۔ یعنی تمام اولیاء معاذ اللہ۔ عطائی و وہبی خدا ہیں۔ 7۔ قریباً تمام سیاسی لیڈر اور تمام سیاسی جماعتیں کافر و مرتد ہیں۔ (ملاحظہ ہو: فتاویٰ رضویہ، ملفوظات، تجانب اہل السنۃ وغیرہ و دیگر ”ارشادات“ بریلویہ) واقعات شاہد ہیں کہ یہ لوگ بالکل باطنی فرقے کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں اور توحید و سنت کی ترقی سے کچھ بوکھلا سے گئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر بالکل یاس
[1] ۔ صحيح البخاري، رقم الحديث (6137)