کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 404
اسے کچھ ”اہل علم“میسر آگئے، جن سے انگریز کاکام چل نکلا۔ تحریک توحید کی سر پرستی رائے بریلی کے ایک فقیر نے فرمائی تھی۔ شرک و بدعت کی سر پرستی بانس بریلی کے ایک خاندان کے حصے میں آ ئی۔ مولوی احمد رضا خاں صاحب 1272ھ میں پیدا ہوئے۔ خاندان میں پڑھنے پڑھانے کا چرچا موجود تھا۔ سن رشد کو پہنچے بقول موصوف ان کے والد مولانا نقی علی خاں نے اپنے ہو نہار فرزند کو 1282ھ میں مسند افتا پر بٹھا دیا۔ خان صاحب نے مسند سنبھالتے ہی بدعت کی تائید اور مشرک کی حمایت شروع فرمائی شرک کو مدلل اور اہل بدعت کو منظم کرنے کے لیے موصوف نے اپنے اوقات عزیزہ وقف فرما دیے۔ کوشش فرمائی کہ عوام میں جس قدر بد عملی اور بدعی رسوم موجود ہیں، ان سب کو سند جواز عطا فرمائی جائے عوام کو معاصی پر جرأت دلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ ہر ہر بدعت جائز قرارپا جائے۔ خاں صاحب کی چھوٹی موٹی تصانیف کو دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد فی سبیل اللہ فساد کے سوا کچھ نہیں۔ ان تصانیف میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس سے مسلمانوں کی دینی، معاشی یا سیاسی زندگی میں تبدیلی نمایاں ہو سکے۔ خاں صاحب نے مدۃ العمر کسی سیاسی یا علمی تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ البتہ ہزاروں مسلمان جناب کے علم اور قلم کے زور سے کافر قرار پائے اور ان ساری کوششوں میں انگریز کا دست شفقت خاں صاحب کو سہارا دیتا رہا۔ مخالف توحید تحریک کی ناکامی: حقیقت یہ ہے کہ رضا خوانی تحریک کا براہِ راست مقابلہ کتاب وسنت سے اور اس کی جنگ مجاہدین اسلام اور شہدائے حق سے تھی۔ ان کی تکفیر کا نشانہ شہدائے بالا کوٹ تھے۔ ان لوگوں کا خوشگوار مشغلہ صرف تقویۃ الایمان، نصيحة المسلمین، راہ سنت اور کتاب التوحید جیسی مدلل کتابوں بلکہ قرآن عزیز کے بھی بعض بنیادی قصص کی تردید کرنا ہی رہ گیا تھا، اور