کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 403
اتار کر انھیں فہم و فراست عطا کی جا سکتی ہے، لیکن یہ کام اصحاب التدریس اور ارباب التصانیف کا نہیں، یہ وہ لوگ کریں گے جو کاغذ اور دوات، قلم اور روشنائی کے علاوہ سیف و سنان سے نہ صرف واقف ہوں، بلکہ انھیں آلات حرب سے گہرا تعارف ہو۔ ع
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
حضرت شہید رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک کے مقاصد کی اشاعت کے لیے شہادت سے پہلے تقویۃ الایمان لکھی اور ساتھیوں کے مشورے کے بعد اسے شائع فرمایا۔ تذکیر الاخوان کا مسودہ لکھا، معترضین کے جوابات لکھے اور یہ سب کچھ تحریک کی تائید اور اس کے مقاصد کی روشنی میں تھا۔ آج اگر اکابر دیوبند اور علمائے اہلحدیث کوئی ایسی چیز فرمائیں، جو تحریک کے مزاج سے متصادم ہوں تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
ستیزہ کاررہاہے ازل سے تا امروز
تیسرا ہنگامہ:
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک نے احیائے سنت اور تجدید اثر دین کی راہ میں جہاں عظیم الشان قربانیاں پیش کیں، وہاں ایک تحریک اس کے بالمقابل شروع ہوئی، جس نے بدعات کے جواز میں دلائل کی تلاش کی اور عوام کی بدعملی کے لیے وجہ جواز پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بدعت ہر زمانے میں رہی۔ حالات کے ماتحت اس کی مختلف صورتیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔ بدعت کا وجود کبھی منظم طور پر موجود نہ رہا۔ مغل حکومت میں بدعت عام تھی، لیکن بظاہر غیر منظم، اسے ترجمانی کے لیے علماء کی باقاعدہ خدمات میسر نہ آسکیں۔
مغل زوال کے بعد سکھ، مرہٹے، انگریز، اہل توحید، سب نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ موحدین کے لشکرکی سیاسی شکست نے اہل بدعت پر سکتہ طاری کردیا، لیکن باطل نے اقتدار کی زمام سنبھال لی، 1857ءکے معرکہ حریت میں اسے محسوس ہوا کہ علماء کی خدمت کے بغیر اقتدار پر قبضہ کرنااور مسلمانوں کو مطمئن کرنا مشکل ہے۔ جوئندہ یا بندہ