کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 402
تعارض نہیں اٹھا سکے، بلکہ حافظ سیوطی نے تو حاطب لیل کی طرح ایک غیر موثق ذخیرہ جمع فرما دیا ہے، جس سے حضرات قبور یین کو مدد ملے گی اور سادہ دل اہل توحید کے دل شبہات سے لبریز ہوں گے۔ قریباً یہی حال حافظ ابن القیم کی کتاب الروح کا ہے۔ فحول اہلحدیث اور ماہرین رجال کو تو کوئی خطرہ نہیں، لیکن عوام کے لیے یہ موردمزلہ اقدام ہے۔ تصفیہ کی صورت: اس لیے تصفیہ کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ تحریک کے مزاج کی روشنی میں شاہ صاحب سے تعلق رکھنے والے اور اس خاندان کے عقیدت مند مسئلہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر اکابر ہی کی اقتدا اور تقلید سے اس مسئلے کو سمجھنا ہے، کتاب و سنت اور بحث و استدلال سے صرف نظر ہی کا فیصلہ فرما لیا گیا ہے، تو پھر اکابر کے اکابر اور بانیان تحریک کے نظریات سے کیوں استفادہ نہ کیا جائے؟مولانا حسین احمد مرحوم اور حضرت مولانا نانوتوی مرحوم کی رائے فیصلہ کن ہے تو بانیان تحریک اور تحریک کے مدارج کو حاکم کیوں نہ مان لیا جائے ؟ شاہ شہید رحمۃ اللہ علیہ: مولانا شاہ محمد اسماعیل کی شہادت اور عبقریت نے پوری تحریک کو نظریات اور تصورات کی دنیا سے عمل کے میدان میں لا کھڑا کردیا۔ اشارات اور تعریضات کو تصریحات سے بدلا۔ جو کچھ کتابوں کے اوراق کی زینت تھا، اسے بالا کوٹ کے میدا ن میں علی رأس التمام رکھ دیا گیا۔ سکھوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا کہ حق و صداقت، ایثار و قربانی کےجوہر مناظرات اور مکالمات ہی سے ظاہر نہیں ہوتے۔ ان کے ظہور کا بہت بڑا ذریعہ تلوار اور میدان جنگ ہی ہے قلم کی دو زبانوں اور دوات کی روشنی سے جو کچھ کیا جا سکتا تھا، اس سے کہیں زیادہ قوت گویائی خون کے چھینٹوں میں ہے، اس لیے گل رنگ قطرات ہزاروں زبانوں پر تالے ڈال سکتے ہیں اور وہ برسوں گنگ ہو سکتی ہے، اور سینکڑوں دلوں سے تالے