کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 400
بان فھم الحدیث والقضاء بہ من شان الکمل المھرۃ وان ائمۃ لم یکونوا ممن نخفی علیھم ھذٰا الحدیث فما ترکوہ الالوجہ ظھر لھم فی الدین من نسخ اومرجو حیۃ۔ الخ۔ )) (تفہیما ت :1/214۔ 215) ”بہت سے لوگوں کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معلوم ہو جاتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔ وہ یہ حیلہ کرتے ہیں کہ فلاں شخص کے مذہب پر میرا عمل ہے حدیث سمجھنا معمولی آدمی کاکام نہیں امام اس حدیث سے بے خبر نہیں تھے۔ یہ حدیث منسوخ ہوگئی یا مرجوح یہ قطعًا درست نہیں اگر پیغمبر پر ایمان ہے تو اس کی اتباع کرنا چاہیئے۔ مذہب اس کے مخالف ہو یا موافق، خدا تعالی کا منشایہ ہے کہ کتاب وسنت کے ساتھ تعلق رکھا جائے۔ “ فقہی فروع میں مسلکی جمود شاہ صاحب کو سخت ناپسند ہے اسی طرح وہ ظاہریت محض (امام داود ظاہری کا مسلک) کو بھی نا پسند فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اگر حدیث کی صحت آئمہ حدیث کی شہادت سے ثابت ہوا اور اہل علم نے اس پر عمل بھی کیا ہوا اور اس پر صرف اس لیے عمل نہ کیا جائے کہ فلاں امام نے اس پر عمل نہیں کیا یہ ضلال بعید ہے۔ (تفہیمات:1/209۔ 211) اس قسم کی تصریحات شاہ صاحب کی باقی تصنیفات میں بھی بکثرت موجود ہیں میں نے یہ طویل سمع خراشی اس لیے کی ہے کہ اس پاکیزہ تحریک کامزاج معلوم ہوجائے تاکہ اس کے دوصدی کے اثرات کا صحیح اندازہ کیا جاسکے۔ ان مقاصد کے خلاف ان بزرگوں کی تصانیف میں اگر کوئی حوالہ ملے تو اس کا ایسا مطلب نہ لیا جائے جو مقاصد تحریک کے خلاف ہوبلکہ وقتی مصالح پر محمول کیا جائے کیونکہ ان بزرگوں نے جن سنگلاخ حالات میں کام کیا ہے ان کے مصالح اور ان کے مقتضیات بدلتے رہتے ہیں، جن مشکلات میں ان حضرات کو کام کرنا پڑا ان مشکلات کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ شكر الله مساعيهم۔