کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 397
میں فقہائے محدثین کی راہ اختیار فرمائی اور فقہ العراق کے ساتھ کلی تعاون سے انکار فرمایا۔
(ابجد العلوم:3/900 محبوب العارفین، ص:76)
قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمہ اللہ نے مرزا مظہر جان جاناں اور حضرت شاہ ولی اللہ سے استفادہ فرمایا۔ ان کی تصانیف:ارشاد الطالبین اور تفسیر مظہری شاہد ہیں کہ حنفی ہونے کے باوجود، بدعات اور عباد ِ قبور کے خلاف ان کا لہجہ کس قدر تلخ ہے اوربدعی رسوم سے انھیں کس قدر نفرت!
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ، البلاغ المبین، مصفیٰ اور مسویٰ، انصاف، عقد الجید اور تحفۃ الموحدین میں فقہی جمود، بدعات اور مشرکانہ رسوم کے خلاف ایسی حکیمانہ روش اختیار فرمائی، جس سے حقیقت بہت حد تک واضح ہوگئی۔ اصولِ فقہ کی بعض مسلمات پر ایسی میٹھی تنقید فرمائی، جس سے ذہین طبائع وجرأت پیداہوئی۔ ازالۃ الخفاء میں بدعت تشیع کو اس قدر عریاں فرمایاکہ ذہین اور دانشمند طبائع کو محبتِ اہلِ بیت کے عنوان سے دھوکا دینے کی کوئی گنجائش نہ رہی۔
ان مختصر ارشادات سے اس تحریکِ اصلاح اور اقامت ِ دین کا مزاج آپ کو سمجھنا مشکل نہیں۔
دیوبندی اور اہل ِ حدیث:
یہ دونوں مکتب فکر ی طور پر اسی تحریک کے ترجمان ہیں یا کم از کم مدعی ہیں کہ ہم اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ شاہ صاحب کے مندرجہ ذیل گرامی قدر ارشاد سے یہ حقیقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس تحریک کا مزاج کیا ہے:
’’وصیت اول ایں فقیر چنگ زون است بکتاب وسنت ودراعتقاد عملی پیوستہ بتد بیر ہر دومشغول شدن وہر روز حصہ ازہر دوخواندن اگر طاقت خواندان نہ وارد ورقے ازہر دو شنید ن ودرعقائد مذہب قدماء اہل سنت اختیار کروںو از تفصیل و تفیش آنچہ سلف تفتیش نہ کروہ اند اعراض نمودن وتبشکیکات