کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 395
ہندوستان کی تحریکِ جدید:
ہندوستان کی تحریکِ احیاء وتجدید، جس کی ابتدا سید احمد سرہندی نے فرمائی اور اس کی تکمیل شاہ اسماعیل شہید اور حضرت سید احمد شہید اور ان کے رفقاء نے فرمائی، ابتدا میں علمی اور اصلاحی تھی۔ علمائے سوء اور انگریز کے منحوس وفاق نے اسے مجبوراً سیاست میں دھکیل دیا۔ سکھوں کی حماقت نے اتقیاء کی اس جماعت کو مجبور کردیا کہ وہ جنگ کی آگ میں کودیں اور اپنی قیمتی زندگیاں حق کی راہ میں قربان کردیں۔ پھر گمراہ کن فتوؤں کی سیاہی نے ملت کے چہرے کو اس قدر بدنماکردیا تھا کہ اسے دھونے کے لیے شہادت کے خون کے علاوہ پانی کے تمام ذخیرے بے کارہوچکے تھے۔ وہابیت کی تہمتِ مستعار نے ذہن ماؤف کردیے تھے۔ الحاد کا گرد اُن پر اس قدر جم چکا تھا کہ اس صاف کرنے کے لیے صرف شہداء کا خون ہی کارآمد ہوسکتا تھا۔
چنانچہ مئی 1831ء کی صبح کو یہ مقدس جماعت انتہائی کوشش اورممکن تیاری کے ساتھ بالاکوٹ کے میدان میں اتری اور دوپہر سے پہلے صداقت کے نہ مٹنے والے نشان دنیاکی پیشانی پر ثبت کرنے کے بعد ہمیشہ کی نیند سوگئے۔
((وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ)) (البقرۃ: 154)
تحریک کا مزاج:
پیش نظر مسئلے کے متعلق بحث ونظر سے پہلے ضروری ہے کہ اس تحریک کے مزاج کو سمجھ لیا جائے۔ حضرت مجدد رحمہ اللہ سے شاہ ولی اللہ کے ابنائے کرام تک یہ تمام مصلحین عظام ظاہری اعمال میں عموماً حنفی فقہ کے پابند تھے، لیکن ذہنی طور پر تین مقاصد کی تکمیل ان کا مطمع نظر تھا:
1۔ تصوف کے غلو آمیز مزاج میں اعتدال۔۔۔۔۔
2۔ فقہی اور اعتقادی جمود کی اصلاح او راشعریت اور ماتریدیت کے ساتھ فقہ العراق