کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 394
اصلاحی تحریکات کا مدوجزر:
گیارھویں صدی ہجری کے آغاز سے تیرھویں صدی تک طاغوتی طاقتیں گوکافی مضوط تھی، مگرخدا تعالیٰ کی رحمت کی تابانیاں بھی نصف النہار پر رہیں۔ اس اثناء میں اللہ تعالیٰ نے مصلحین کی ایک باوقار جماعت کو حوصلہ دیا اور کام کا موقع مہیا فرمایا۔ مصلحین کے پرشگوہ اور فعال گروہ اطرافِ عالم میں نمودار ہوئے۔ فتح وشکست کے اثرات اورنتائج گومختلف ہیں، لیکن مقامِ شکر ہے کہ ان حضرات کی صبر وعزیمت نے دنیا میں جو گہرے نقوش اور نہ مٹنے والے آثار آنے والو کے لیے چھوڑے ہیں، وہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے:
((وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ)) (المطففین:3)
نجد میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور سعودی خاندان۔ ایران، افغانستان، مصر اور شام میں جمال الدین افغانی رحمہ اللہ اور ان کےتلامذہ۔ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان اورتلامذہ۔ ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا، اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔
محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ علمی اورسیاسی طور پر کامیاب ہوئے۔ جمال الدین افغانی رحمہ اللہ نے ایسے کامیاب، قابل، اور مخلص دماغوں کو تربیت دی، جن کی وجہ سے مصر وشام علم واصلاح کا گہوارہ قرار پایا اور ان کے فیوض نے ذہنوں کی کایا پلٹ دی۔ ان حضرات کی کوششوں نے یورپ کے مادی منصوبوں کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کردیں، جن کو عبور کرناابلیسی طاقتوں کے لیے آسان نہیں۔
مصر وشام کی آزادی اوردینی تحریکوں میں ان مساعی کو بڑا دخل ہے، جن کا آغاز مجد د وقت شیخ جمال الدین افغانی اور سید عبدہ نے فرمایا اور اس کی تکمیل میں سید رشید رضا، علامہ مراغی، سعد غلول، امیرشکیب ارسلان ایسے بیدار مغز لوگوں نے شب وروز محنت فرمائی اور کافی حد تک ان کو کامیابی ہوئی۔