کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 392
ہے۔ دلائل کا انداز بھی جو عموماً بریلوی حضرات کی تحریرات میں ہوتاہے، دہرایا گیا ہے، اس قدر فرق کے ساتھ کہ نفسِ مسئلہ کی تفصیل ہے، ذاتیات میں الجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اہل ِ علم سے یہی امید ہونی چاہیے۔
دلائل میں کوئی خوبی ہو یا نہ ہو، لیکن مضمون کے ڈانڈے پاکستان سے ملتے ہیں، پھر اس کی اشاعت دیوبندی مکتب فکر کی مرکزی درس گاہ کےمجلّہ میں ہوئی ہے۔ مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے دانشمندوں نے مقامی مصالح کی بنا پر مرکزی اکابر کو استعمال فرمایا ہے اور وہ حضرات بلاتحقیق وتبیین استعمال ہوگئے ہیں۔ اس اختلاف سے بریلوی مکتبِ فکر جو فائدہ اٹھارہا ہے، اس کی اصلاح کے لیے مسئلے کی وضاحت ضروری ہے۔
راقم الحروف، مولانا محمد انظر او رمولانا زاہد الحسینی سے ذاتی طور پر ناآشنا ہے، اس لیے اس جسارت پر معافی چاہتا ہوں، مجھے یقین ہے کہ بحث مسئلے کی حد سے تجاوز نہیں کرے گی۔ وما توفیقی الا باللہ۔
محمد اسماعیل، کان اللہ لہ