کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 391
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اَلْحَمْدُ لِلَّهِ كَبِيرًا، وَ َأشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ؛وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ؛ أَرْسَلَهُ اللَّهُ تَعَالَى بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا و صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم تَسْلِيماً كَثِيراً كَثِيراً أَمابعد! کچھ عرصہ ہوا، ایک موحد عالم نے ملتان میں توحید کے موضوع پر تقریر فرمائی، جو عوام اور خواص میں پسند کی گئی، مگر ان کے حلقے کے بعض حضرات نے عقیدۂ توحید میں استواری کے باوجود اس تقریر کے بعض حصوں پر اعتراض اور اسے ناپسند کیا، اورکوشش کی گئی کہ تقریر کے اثرات کو کم یا زائل کیا جائے۔ مقرر نے توحید کے موضوع پر بیان فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کا ذکر فرمایا اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح زندہ سمجھتے ہیں، ان کے خیالات پر تنقید کرتے ہو ئے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی”دنیوی زندگی“ ہو تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کو زندہ سمجھتے ہوئے کیسے دفن کیا؟کیونکہ ناممکن ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرح زندہ سمجھیں اورزمین میں دفن کیے رکھیں۔ (یہ مفہوم ہے، ممکن ہے الفاظ میں فرق ہو) چونکہ مخالفت بااثر اور اہل علم حضرات کی طرف سے تھی اور یہ حضرات بھی دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لیے اس کا اثرپاکستان میں دوسرے مقامات پر بھی ہوا او رکوشش ہوئی کہ اس قسم کے صاف گو مبلغین کا مقاطعہ کیا جائے، بلکہ اس کا اثر ہندوستان تک بھی پہنچا، چنانچہ ماہنامہ” دارالعلوم“ دیوبند، میں ایک مضمون مولانا زاہد الحسینی کے قلم سے اورایک تعارفی نوٹ مولانا سید محمد انظر صاحب کے قلم سے شائع ہوا، مگر دونوں مضامین میں کوئی جدت نہیں۔ حیاتِ انبیاء کے متعلق وہی بریلوی نقطۂ نظر ہے، جسے پھیلا دیا گیا