کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 385
"بایددانست کہ انسان اگر عامی باشد و بسبب مشاغل دیگر از نوشت وخواندو دراکتقابر دریافت از علماء نماید برائے آن مناسب این است کہ از علمائے محدثین دیندار کہ دردیانت و خوف خدادانست قرآن و حدیث مشہور شدہ باشند سوال نمائند بایں طور کہ مارادریں مسئلہ طور محمدی تعلیم نمائند واگر مرد طالب علم است و شوق تعلیم دردل وارد مناسب ایں است“اول قرآن و حدیث بخواند بعد ازاں بکتب دیگر نظر ہمت گماروتا آئینہ وار ظاہر شود کہ رائے کدام بزرگواردرکدام جاصحاب یافتہ وکجادے خطا دیدہ پس ہر مسئلہ کہ مصرح بقرآن و حدیث یا بددرآں تقلید بہیچ مجتہد نہ کنند کہ در مصرحات اجتہاد را دخلے نیست (ص:16) ”اگر عامی آدمی شغل کی وجہ سے علم نہ حاصل کر سکے تو اسے علماء اہل حدیث کی طرف جن کے علم و دیانت کی شہرت ہو رجوع کرے کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی طرف راہنمائی کی جائے۔ اگر آدمی علم کا شوقین ہو تو اسے سب سے پہلے قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ ظواہر نصوص میں کسی مجتہد کی تقلید کی ضرورت نہیں۔ یہ بالکل وہی انداز ہے جس کا تذکرہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ ، شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ، ان کے رفقاء اور تلامذہ کرتے رہے۔ اس نے تیرھویں صدی ہجری میں سکھوں اور انگریزوں کے اتحاد اور کم فہم علمائے ہند کی مخالفت کی وجہ سے سیاسی اسباب و دواعی کے ماتحت تحریک جہاد اور ہندوستان کی آزادی کے لیے ابتدائی کوشش کی صورت اختیار کی۔ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی نگرانی میں سیّد احمد کی قیادت اور شاہ اسمٰعیل شہید رحمہ اللہ، مولانا عبدالحی بڈھانوی وغیرہ کی رہنمائی میں جہاد کا پروگرام بنانا پڑا۔ کلکتہ کے اطراف میں انگریزوں اور پنجاب میں سکھوں کے اثر کی وجہ سے ان لوگوں نے اپنی حریت پسند مساعی کے لیے صوبہ سرحد کا انتخاب کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں کی مسلمان اکثریت ان کے ساتھ پورا تعاون کرے گی۔