کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 384
”اپنا عنوان نشان خالص محمدی رکھنا چاہیے کسی خاص مذہب اور طریقہ میں منسلک نہیں ہونا چاہیے “ شاہ صاحب نہ تو فروع فقہیہ میں کسی خاص امام یا کسی فرقہ کا تعین پسند فرماتے ہیں نہ تصوف کے متعارف سلاسل میں کسی خاص سلسلہ سے انسلاک ان کی نظر میں مناسب، محمدیت خالصہ ان کے پیش نظر یا بالکل شاہ ولی اللہ صاحب کی دعوت ہے جسے ان کے ابناء احفاد نے رواج دیا بلکہ اپنی زندگیاں اس کے لئے وقف فرمائیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ ان کے تلامذہ اور ان کا خاندان ان الفاظ سے بالا رہ کر وہ فقہی جمود اور تصوف میں جمود کو تورنا چاہتے تھے۔ اوروہ اس مہم کو کسی تنفر کے بغیر ذہنوں میں نقش کرنا چاہتے تھے۔ 1246ء جبکہ بالا کوٹ میں ان کی شہادت کا دل فگار واقعہ پیش آیا تو ترک تقلید بالفصد سے وابستگی میں تصادم نہیں۔ موحدین کے اس شک میں اختلاف خیال تو ہو گا مگر اسے کبھی ابھرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ سانحہ شہادت کے چند ماہ بعد جماعت مجاہدین کے پورے نظم کی ذمہ داری صادق پوری حضرات نے اپنے سر پر لے لی۔ مولانا ولایت علی اور مولانا عنایت علی وغیرہم نے جہاد اور تبلیغ کے دونوں نظام بڑی کامیابی سے چلائے۔ یہ حضرات شاہ شہید رحمہ اللہ سے زیادہ متاثر تھے۔ اس لئے یہ اتباع سنت کے ساتھ تقلید اور جمود کی حوصلہ افزائی نہیں ہونےدیتے تھے اس لئے 1246ء کا تقلید پسند طبقہ پچھلی صفوں میں چلا گیا۔ یہ حضرات فقہیات پر تنقید فرماتے لیکن فقہاء پر تنقید نہ کرتے۔ ائمہ اربعہ کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کے اجتہادات کے لئے صحیح محل تلاش فرماتے تھے۔ لیکن حنفی نقطہ نظر سے نہیں گھبراتے تھے مگر تقلید اور جمود کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ سید شہید کے بعد مولانا ولایت علی 1269ء میں جماعت کے امیر قرار پائے۔ ان کی کتاب عمل الحدیث اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ مولانا نے فرمایا: