کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 383
خیال میں حضرت شہید پر یہ محض بد گمانی ہے جس کے لیے ثبوت ملنا مشکل ہے۔ مصالح جہاد کی وجہ سے ہوسکتا ہے اس پر کسی وقت عمل نہ کیا گیا ہو، لیکن ذہن نہیں بدلا، سید احمد صاحب کا ذہن یہی تھا، پھر یہ تفہیم کیسی؟
شاہ شہید کی مشہور تصانیف سے((ایضاح الحق الصریح فی أحکام المیت والضریح)) یہ مرحوم کی نامکمل اور آخری کتاب ہے جس میں مرحوم تجہیزو تکفین وغیرہ کے متعلقہ رسوم کے متعلق لکھنا چاہتے تھے۔ بدعت کے متعلق لکھا تھا کہ شہادت کا حادثہ پیش آ گیا۔ کتاب مطبع اشرفیہ دہلی میں مع ترجمہ چھپی ہے شاہ شہید کا ارشاد قابل غور ہے :
”بخلاف قسم ثانی کہ ہر کسی را تحقیق احکام قیاسیہ و اشغل صوفیہ و قوانین عربیہ ضرور نیست و ارادہ ء تقلید شخصے معین از مجتہدین، مشائخ دار کان دین نہ بلکہ ہمیں قدر کافی است کہ وقتے کہ ساجتے پیش از کے از ایشان استفسار کردہ شود نہ آنکہ ارادہ ء تقلید، ہم مثل ایمان بالانبیاء از ارکان دین شمروہ شودو لقب حنفی و قادری بمشابہ لقب مسلمان و سنی اظہار کردہ شود الخ “
ہر آدمی کے لیے قیاسی احکام، صوفیوں کے مشاغل اور عربی قواعد کا جاننا ضروری نہیں۔ أئمہ اجتہاد اور مشائخ سے معین آدمی کی تقلید بھی ضروری نہیں صرف اس قدر کافی ہے کہ ضرورت کے وقت علماء اور صوفیاء میں کسی سے دریافت کر لیا جائے۔ تقلید کو انبیاء پر ایمان کی طرح نہ سمجھ لیا جائے حنفی قادری کا مسلمان سنی کی طرح واجب تصور نہ کیا جائے۔
صفحہ 90 میں فرمایا:
”عنوان شعار خود محمدیہ خالصہ و تسنن قدیم باید داشت نہ تمذہب بمذہب خاص و انسلاک در طریقہ مخصوصہ“