کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 382
اسی دعوت کا ایک اور مقام پر اس طرح اعادہ فرماتے ہیں:
”کیا تم جانتے کہ حکم صرف اللہ کا ہے اور اس کے رسول کا؟ بہت لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پہنچ جاتی ہے، لیکن وہ کہتا ہے: میں فلاں مذہب پر عمل کروں گا، حدیث پر عمل نہیں کروں گا۔ پھر یہ خیال کرتا ہے کہ حدیث صرف ائمہ اور ماہرین ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ائمہ رحمہم اللہ نے ایسی حدیث پر عمل کسی وجہ سے ہی ترک کیا ہو گا، منسوخ ہویا مرجوح۔ یقیناً جان لو یہ قطعاً دین نہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہے تو آپ کی اطاعت کرو، کسی مذہب کے مطابق ہو یا مخالف۔ اللہ کی رضا اسی میں ہے کہ اللہ کی کتاب و سنت پر عمل کیا جائے۔ اگر آسانی سے سمجھ میں آجائے تو بہتر، ورنہ پہلے علما کی رائے سے جو کتاب سنت کے قریب ہو، اس پر عمل کرو۔ “(تفہیمات:1/215)
یعنی بلا تعیین ان کے افکار کی اطاعت کی جائے۔ الفاظ کی بحث بے سود ہے۔ حقائق کی وضاحت کے بعد ظاہر ہے کہ مسلک اہل حدیث نے ہندوستان کے مذہبی جمود کے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا، جس قدر شاہ صاحب نے فرمایا۔ اس کا نام تقلید رکھیے یا ترک تقلید حنفی کہیے یا اہل حدیث اس میں وہ جمود بہر حال نہیں جس کی دعوت آج کل بریلی اور دیوبند سے دی جا رہی ہے۔ مروجہ تقلید کے خلاف اہل حدیث نے اب تک جو کچھ کہا، شاہ صاحب کے ارشادات میں وہ پورا موجود ہے، اس کے خلاف اکابر دیوبند یا عظمائے بریلی نے جو فرمایا، شاہ صاحب کے ارشادات کی روح اس کے خلاف ہے۔ شاہ صاحب سے عقیدت کے ساتھ جمود اور تقلید کی دعوت بے جوڑسی بات معلوم ہوتی ہے!
عرصہ ہوا بعض بزرگان دیوبند نے اکتشاف فرمایا کہ حضرت مولانا شہید کا ابتدا میں رجحان ترک تقلید کی طرف تھا، لیکن حضرت سید احمد صاحب کی تفہیم کے بعد یہ رجحان ختم ہوگیا اور رفع الیدین وغیرہ مسنون اعمال پر شاہ صاحب نے عمل ترک کردیا۔ میرے