کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 381
فلوان حدیثاصحح وشھدبصحة المحدثون عمل به طوایف فظھرفیھالامرثم لم یعمل به ھولان متبوعھ لم یقل به فھذاھوالضلال البعید)) ”میں اللہ کے لیے اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایک ایسے آدمی کے متعلق جس سے خطا اور ثواب سر زد ہو سکتے ہیں، یہ عقیدہ رکھنا کہ اس کی اطاعت فرض ہے، جس چیز کو یہ واجب کہے، وہ واجب ہے، کفر ہے، حالانکہ شریعت اس شخص سے پہلے موجود ہے، علما نے اسے حفظ اور روایت کیا، فقہا نے اس کے مطابق فیصلے کیے۔ تقلید کا مفہوم تو صرف اس قدر ہے کہ علما شریعت کے راوی ہیں، وہ جانتے ہیں جو عوام نہیں جانتے۔ علما نے اسے اپنا مشغلہ قراردیا کہ عوام ایسا نہیں کر سکتے، اس لیے علما کی تقلید کی گئی۔ اب اگر ایک حدیث کی صحت ثابت ہو، علما نے اس پر عمل بھی کیا ہو اور بات واضح ہو جائے، پھر اس پر عمل نہ کیا جائے، اس لیے کہ فلاں امام نے اس پر عمل نہیں کیا، یہ سب سے بڑی گمراہی ہے۔ “ ایک مقام پر شاہ صاحب نے فرمایا کہ میرے دل میں ملائے اعلیٰ کی طرف سے ڈالا گیا ہے کہ حنفی اور شافعی امت مرحومہ میں دونوں مشہور مذہب ہیں اور اکثر لوگ انھیں دونوں مذاہب کے متبع ہیں۔ اکثر فقہا، محدثین، مفسرین اور متکلم صوفی شافعی تھے اور عام بادشاہ اور یونان کے لوگ حنفی تھے۔ ملائے اعلیٰ کا منشا یہ ہے کہ ان دونوں کو ایک مذہب قراردیا جائے اور احادیث پر پیش کیا جائے، جو موافق ہو اسے رکھ لیا جائے، جس کی اصل نہ ملے، اسے دو قول یا دو روایت قرار دے دیا جائے۔ (1/212) شاہ صاحب کے ان ارشادات کا آج دیوبند کی دعوت جمود میں کیا ربط ہے؟ اس پر ارباب ربط کو غور کرنا چاہیے۔ مسلک اہل حدیث کا اجمالاً یہی تقاضا ہے کہ جمود کو قطعاً جگہ نہ دی جائے اور نصوص پر نظر رکھی جائے۔