کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 38
مکتوبِ گرامی سے مسرت ہوئی کہ آپ قانون کے ساتھ شغف کے باوجود مذہب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ سوالات سے ظاہر ہے کہ ان فقہی اختلافیات میں بھی آپ کے مطالعہ کا انداز مناظرانہ ہے۔ آپ نے سوالات کی ترتیب میں قانون اور مناظر ہ دونوں کو ملحوظ رکھا ہے، نیز سوالات اس ذہن کی غمازی کرتے ہیں کہ اہلحدیث کو آپ ایک ایسا فرقہ سمجھتے ہیں جو ائمہ اجتہاد کی ضد ہے اور شاید ہرمسئلے میں ان سے الگ ہے۔ آج کل دیوبند اور بریلی سے جس طرح جمود کی دعوت دی جارہی ہے اور متاخرین شوافع بھی قریباً اسی انداز سے دعوت دیتے ہیں، اس سے تو اہلحدیث کو کلی اختلاف ہے۔ ہم اس جمود کو واقعی قطعاً پسند نہیں کرتے، بلکہ اس جمود کو اسلام کی دعوتِ عام کے بھی خلاف سمجھتے ہیں۔ ایک انصاف پسند طالب علم ان حضرات کی اس تعصب آمیز دعوت سے یہی نتیجہ اخذ کرے گا جو جناب نے اخذ کیا ہے۔ ”لیکن فی الحقیقت اہلحدیث کی دعوت عام اور جامع ہے، اس میں مذاہب اربعہ اور دیگر ائمہ اجتہاد کی فقہی مساعی بھی شامل ہیں، اس دعوت کا مقصد یہ ہے کہ ان مقدس مساعی کا تحقیقی جائزہ لیا جائے اور انھیں کتاب اللہ اور سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے، اور ان اختلافات کی تطبیق اور ترجیح کے وقت ائمہ سلف رحمہم اللہ کی روش کو سامنے رکھا جائے۔ مروجہ فقہوں سے اہلحدیث کو جزوی طور پر یقیناً اختلاف ہے، لیکن ائمہ اجتہاد کے علوم وآثار سے تحقیقی استفادہ تحریک کا اساسی مقصد ہے، یعنی فقہی جزئیات یا اختیار علم وبصیرت کی بنا پر عمل میں آئے، اس کے باوجود ان مختلف نظریات کو گوارا کرنا ااور ائمہ کے علوم کا احترام اور ان سے استفادہ اس تحریک کی روح ہے۔ اس بنیادی اور اجمالی گزارش ہے کہ بعد استفسارات کے جواب ملاحظہ فرمائیں۔“ (ص:506)