کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 379
”فروع میں فقہاء محدثین کی پیروی کرنا، فقہی جزئیات کو کتاب و سنت پر پیش کرنا، موافق کو قبول کرنا، مخالف کو پھینک دینا۔ امت کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اجتہادیا ت کو کتاب و سنت پر پیش کریں اور خشک فقیہ نے، جن کے لیے تقلید شخصی سے بڑی کوئی دستاویز نہیں، کتاب و سنت کے تتبع کو ترک کیا ہوا ہے، ان سے دوری میں خدا کی رضا مندی ہے۔ “ ٭ جامد تقلید کے متعلق شاہ صاحب کے جذبات قابل ملاحظہ ہیں: ((وتری العامة سیما الیوم فی کل قطر یتقیدون بمذھب من مذاھب المتقدمین یرون خروج الانسان من مذھب من قلدہ ولو فی مسئلة کالخروج من الملة کانه نبی بعث الیه و افترضت طاعة علیه وکان اوائل الامة قبل الماَة الرابعة غیر متقیدین بمذهب واحد)) (1/151) ”ہر علاقے کے علام مروجہ مذاہب سے ایک کی تقلید کرتے ہیں، اسے ترک کرنا ارتداد کے برابر سمجھتے ہیں، گویا امام ان کا نبی ہے، جس کی اطاعت ان پر فرض ہے، چوتھی صدی سے پہلے یہ کیفیت نہ تھی۔ “ آج احباب دیوبند غور فرمائیں ! آپ جس انداز سے تقلید کی دعوت دیتے ہیں، ترک تقلید کی مخالفت کرتے ہیں، یہ وہی انداز تو نہیں جس کی شاہ صاحب نے شکایت فرمائی ؟! ٭ اسی طرح تفہیمات(1/152) میں ایسے محققین کا کزر فرمایا ہے جو تقلید نہیں کرتے تھے، کیسے ابن العربی، ابو محمد جوینی، نیز تفہیمات (2/202، 1/215) میں فرمایا: ((ان امنتم بنبیکم فاتبعوہ خالف مذھبا او وافقه)) ”اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہے تو ان کی اطاعت کرو، مذہب کے خلاف ہو یا موافق!“ تفہیمات اس قسم کی دعوت سے بھر پور ہے۔