کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 378
”فقہ حنفی و شافعی کو ملا کر کتاب و سنت پر پیش کرنا چاہیے، جو موافق ہو اس پر عمل کیا جائے ورنہ مختلف فیہ مسائل کو روایات کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ [1]“
شاہ صاحب عملی فروع میں بھی عموماً شوافع کی طرف جھکتے ہیں۔ آمین بالجہر، رفع الیدین، زیارت قبور، قراءت فاتحہ وغیرہ میں شافعی مذہب کو راجح سمجھتے ہیں۔
٭ خیر کثیر میں تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی عجیب انداز سے تعریف فرمائی ہے:
(( اما المتعقمون فی الراَی فلیسوا من اھل النسة فی شئ واما ھذہ المذاھب الاربعة فاقربھا الی السنة مذھب الشافعی المنقح والمصفی وکان نظرہ تصل الی حقیقة العلل والاسباب)) (خبر كثير، ص:124)
”رائے اور قیاس میں غالی قسم کے لوگ یہ قطعاً اہل سنت نہیں ہیں، اور مذاہب اربعہ سے امام شافعی کا مسلک سے سنت زیادہ قریب ہے، ان کی نظر اسباب و علل پر زیادہ گہری ہے۔ “
٭ تفہیمات (2/240) میں پہلے عقائد کا ذکر اور تاکید فرمائی ہے کہ تاویل سے بچ کر مسلک سلف کا اتباع کیا جائے۔ فروع کے متعلق فرمایا:
”دور فروع پیروی علماء محدثین کہ جامع باشند میان فقہ و حدیث کردن وتفریعات فقہیہ را بر کتاب و سنت عرض نمودن و آنچہ موافق باشد در حیز قبول آوردن والا کالائے بد بریش خادنددادن امت ہیچ وقت از عرض مجہتدات برکتاب وسنت استغنا حاصل و سخن متقشفہ فقہاء کہ تقلید عالمے را دست آویز ساختہ تتبع سنت ترک کردہ اندشنیدن و بدیشاں التفات نہ کردن و قربت خدا جستن بدوری ایشا ں۔ [2] “
[1] ۔ تفهيمات : (1/212)
[2] ۔ تفهيمات:(2/240)