کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 376
شيخ كے تلامذه میں سے ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ ان کے تلا مذہ سے شیخ محمد بن یعقوب رحمۃ اللہ فیروزآبادی(817ھ)صاحب قاموس ان کے تلا مذہ سے حافظ ابن حجر (852ھ) احمد بن علی المقریزی المؤرخ (845ھ)ایسے ائمہ کو ان سے استفادہ کا موقع ملا۔ پھر حافظ ابن حجر کے تلا مذہ میں یہ اثر قائم رہا، تحقیق کی یہ شمع جلتی رہی اور جمود کا ثر غالب نہ ہو سکا، گو دونوں نظر یات میں تصادم کے آثار ملتے ہیں۔ حافظ سیوطی (911ھ)شیخ علی المتقی (975ھ) شیخ عبدالوہاب المتقی (1001ھ) شیخ محمد طاہر پٹنوی صاحب مجمع الجار(986ھ) اور حضرت شیخ احمد بن عبدالا حد المجدد السرہندی (1034ھ)قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی (1225ھ) مرزا مظہر جان جاناں (1218ھ) فاخرالہ آبادی (1264ھ) حضرت شاہ ولی اللہ (1176ھ) شاہ عبدالعزیز (1239ھ)شاہ اسماعیل شہید(1246ھ) رحمۃ اللہ علیہم ماحول کی وجہ سے حنفیت کی طرف معمولی رجحان کے باوجود ان میں سے کوئی بھی تقلید اور جمود کا داعی نہیں، بلکہ ہندوستان اور پاکستان میں تقلید و جمود کے خلاف جو جذبہ اس وقت کار فرما ہے، اس کے مؤسس و بانی دراصل یہی مقدس حضرات ہیں رحمة الله عليهم ان تمام اعلام کے ارشادات کے تذکرہ سے مضمون اور بھی واضح ہو گا۔ ان بزرگوں کے کار نامے اور علمی نوشتے اہل علم کی نظروں میں پوشیدہ نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے ”حجة الله البالغة“، ”الانصاف“، ”عقد الجيد“، ”الخير الكثير“، ”تفهيمات اول و ثاني“، ”المقالہ ضیۃ “، اور”الانتباہ“وغیرہ میں اس موضوع پر اتنا لکھا ہے کہ اس سے زیادہ لکھنا مشکل ہے۔ ٭ حجۃ اللہ البالغہ (1/124) میں عزبن عبدالسلام سے نقل فرمایا: ((ومن العجب العجیب ان الفقهاء المقلدین یقف احدهم علی ضعف ما خذ امامه بحیث لا یجد لضعفه مدفعا وهو مع ذالك یقدله فیه ویترك من شهد الکتاب والسنة و........الصحیحة