کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 375
((فا اما اجتمعوا علیه فنحن الذین اتبعوا اجما عھم وللہ الحمد کثیرا و انماخالف اجماعھم من دعیٰ الی التقلید انسان بعینه کما فعل ھولاء فی تقلید ھم مالکا دون غیرہ ولم یکن قط فی الصحابة ولافی التابعین ولا فی القرن الثالث و احد ممافوقه فعل ھذا الفعل ولا اباحہ لفاعل)) [1](التعنيف، ص:89) ”اگر صحابہ کا کسی مسئلے پر اجماع ہو تو ہم بحمد اللہ اسے قبول کرتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے تقلید شخصی کی دعوت دی، ان لوگوں نے اجماع کی مخالفت کی ہے، جس طرح مالکیوں نے صرف امام مالک کی تقلید کی۔ صحابہ، تابعین اور تیسری صدی تک کوئی آدمی نہیں، جس نے یہ فعل کیا ہو یا اس کو جائز کہا ہو۔ اجماع کے مخالف دراصل وہی لوگ ہیں جو تقلید شخصی کی دعوت دیتے ہیں۔ “ حافظ ابن حزم کی ”الا حكام“، ”المحليٰ“، ”الفصل“وغیرہ اسی مواد سے بھری پڑی ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (728ھ) کے تجدیدی کارناموں سے ساتویں اور آٹھویں صدی دونوں متاثر تھیں۔ شیخ کی آواز مدارس اور ایوان حکومت میں یکساں گونجتی تھی۔ شیخ کی تنقید سے حکومت کے دربار لرزتے تھے۔ صوفیوں کی خانقاہیں شیخ کے اصلاحی پروگرام کے سامنے جھکتی تھیں۔ غرض شیخ کے اصلاحی کارنامے زندگی کے ان تمام گوشوں پر اثر انداز ہوتے تھے، جن کا دین سے کچھ بھی تعلق نہ تھا۔ شیخ کا حلقہ درس بھی کافی وسیع تھا۔ دعوت و تبلیغ کی مساعی بھی ہمہ گیر تھیں۔ شیخ کےتلامذہ اور رفقاء کا حلقہ بھی اسی طرح وسیع تھا۔ حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ، حافظ جلال الدین المزی، حافظ ذہبی، حافظ عمادالدین ابن کثیر، محمد بن احمد ابن عبدالہادی مقدسی وغیرہم رحمہم اللہ کبارائمہ امام کے علوم سے مستفیض تھے۔ یقینا شیخ الا سلام کا اثر شیخ کے بعد برسوں قائم رہا ہو گا۔
[1] ۔ دیکھیں:رسائل ابن هزم (3/77)