کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 374
بے محل استعمال سے صحیح نہیں ہو سکتے، صیقل کرنے والا موچی نہیں کہلاسکتا، نہ بڑھئی ہی کولوہار کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اہلحدیث کو حشوی یا ظاہری کہا جائے تو وہ حشوی یا ظاہری نہیں ہو گا، نام کی کچھ حقیقت ہوتی ہے جس پر وہ بولا جاتا ہے۔ [1] ٭ علامہ ابو بکر محمد بن حسن بن فورک (406ھ)نے ”مشکل الحدیث“میں ملحدین کے تذکرہ میں تعارف کے طور پر فرمایا: ((وخصو ابتقبیح ذالك الطائفة التی ھی الظاھرة با لحق لسانا وقھراو علو او امکانا الطاھرہ عقائدھا من شوائب الاباطیل وشوائن البدع والاھواء الفاسدة هی المعروفة بانھااصحاب الحدیث)) (ص:3) ”ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس گروہ کی تنقیص کرتے ہیں جن کی زبان و بیان پر ظاہر اًباطناً حق غالب ہے، ان کے ع قائد بدعات اور باطیل سے پاک ہیں، وہ اصحاب الحدیث کے نام سے مشہور ہیں۔ “ اس کے بعد ان کی دو قسمیں ہیں: ایک جن کا مشغلہ اسانید اور ان کے متون کا ضبط ہے، اور دوسرے وہ جو اسباب و علل اور قیاس و نظر سے احادیث میں بحث کرتے ہیں۔ [2] ٭ اسی طرح ابو الفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی(548ھ) نے ((الملل والنحل) میں اس مکتب فکر کا ذکر فرمایا۔ [3] ٭ حافظ حزم اندلسی الظاہری (456ھ) گو ظاہری ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو اہل حدیث شمار فرماتے ہیں، تقلید و جمود پر سختی سے تنقید فرماتے ہیں۔ اپنے وقت کے مالکی علما و صحابہ کے فروعی اختلافات کے متعلق فرمایا:
[1] ۔ تاويل مختلف الحديث (ص:81) [2] ۔ دیکھیں:مشكل الحديث وبيانه لا بن فورك الاصبهاني (ص:37) [3] ۔ دیکھیں:الملل وانحل للشهرستاني (1/20، 100، 153، 172، 205)