کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 37
اہلحدیث کی خصوصیت: مؤلف نے عقیدہ وعمل کے لحاظ سے آٹھویں صدی تک کے اُمت کے حالات کی جانب اشارہ کیا ہے، پھر لکھتے ہیں: ”ان تمام مقامات میں بحمداللہ اہل حدیث کی روش ایک جیسی رہی۔ وہ فروع، عقائد اور تصوف میں صحابہ کی اتباع کرتے رہے اور خانقاہی نظام کی بدعات سے اسی طرح نفرت کی، جس طرح فروع میں جامد تقلید اور عقائد میں بے دینی کی بدعات سے انھیں نفرت تھی۔ ﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ﴾ ”اہلِ حدیث نے کتاب وسنت کے فہم میں کسی فرد کی امامت کے بجائے ائمہ سلف اور صحابہ کو اپنا امام تصور کیا اور فروع، عقائد، احسان اور تصوف میں ان بزرگوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور نہ شخصی آرا وافکار کو ائمہ سلف اور صحابہ کا بدل سمجھا۔ دراصل فتنوں کے دورِعروج میں آزادی اور پابندی، جمود اور آوارگی کے بین بین یہی صحیح حل تھا، جسے ائمہ حدیث نے تلاش فرمایا اور عملاً صدیوں سے اس پرکار بند ہوکر ذہن کی آوارگی اور جمود کا مقابلہ کیا۔ “(ص:118) چند اہم سوالات اور اُن کے جوابات: مصنف سے ایک صاحب نے جماعت اہل حدیث کے مسلک سے متعلق 14 سوالات کیے تھے۔ مصنف نے ان کے مختصر جوابات دیے، جو ہفت روزہ”الاعتصام“ لاہور میں شائع ہوئے۔ جواب سے پہلے مصنف کی تمہید قابلِ توجہ ہے، اسی طرح جوابات بھی ذہن کی گرہیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، لیکن ان کو اس تحریر میں نقل کرنا باعثِ طوالت ہے۔ میں صرف مصنف کی تمہید پر اکتفا کرتا ہوں: ”محترم !السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!