کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 366
آخر میں فرمایا: ((وهذا هو للمسلمين بالنسبة إلى سائر الأمم ولأهل السنة والحديث بالنسبة إلى سائر الملل)) (ص:8) ”مسلمانوں میں ذہانت اور خوبیاں تمام اُمتوں سے زیادہ ہیں۔ اہل حدیث میں باقی مذاہب سے زیادہ ہے۔ “ فرمایا:ائمہ اربعہ اور باقی تمام فقہائے محدثین کو دنیا میں اس لیے برتری حاصل ہے کہ وہ ائمہ اہل حدیث اور سنت کے موافق تھے، اسی طرح بدعتی فرقوں کا حال ہے، جہاں تک وہ اہل حدیث کے موافق ہیں، ان کی تعریف کی گئی ہے اور جہاں تک وہ اہل حدیث کے مخالف ہیں علمی حلقوں میں ان کی مذمت کی گئی ہے۔ (ص:6 سے 11) گویا حق و باطل کا معیار ہمیشہ اہلحدیث رہے ہیں۔ شیخ الاسلام اسی لقب کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ((ونحن لا نعني بأهل الحديث المقتصرين على سماعه أو كتابته أو روايته بل نعني بهم كل من كان أحق لحفظه ومعرفته وفهمه ظاهرا وباطنا وكذلك أهل القرآن)) (نقض النطق، ص:81) ”اہل حدیث اور اہل قرآن سے ہمارے مراد وہ لوگ نہیں جو صرف حدیث کے سماع یا روایت یا کتابت تک ہی محدود ہوں، بلکہ مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث کے حافظ، اس کے مفہوم کو ظاہری اور باطنی طور پر پوری طرح سمجھتے ہوں اور پوری طرح اس کا اتباع بھی کرتے ہوں، یعنی ان میں بصیرت اور تفقہ بدرجہ اتم موجود ہو۔ “ صفحہ (74)پر لکھتے ہیں: ((إن علامة الزنادقة تسميتهم لأهل الحديث حشوية)) ”بے دین اہل حدیث کو لفظ پرست اور حشوی کہتے ہیں۔ “