کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 365
پوری کتاب (211) صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، یہ اسی سوال کا جواب ہے۔ ابتدا میں شیخ الاسلام نے صفات باری میں تفویض کا ذکر فرمایا، تشبیہ و تجسیم اور تعطیل کی نفی فرمائی اور فرمایا: اس باب میں ائمہ اربعہ اور اہل سنت کا وہی مذہب ہے جو اہل حدیث کی طرف منسوب ہے۔ اعتزال، محیم، تعطیل و تشبیہ اور تجسیم کی راہیں بدعت ہیں کی فلا سفہ اورمتکلمین کے مد مقابل عقل و نقل ہیں۔ جس جماعت نے ان بدعات کا صدیوں مقابلہ کیا وہ اہل حدیث ہی تھے۔ امام اسماعیل بن عبدالرحمٰن صابونی(449ھ)کا قول ذکر فرمایا: ((إن أصحاب المتمسكين بالكتاب والسنة يعرفون ربهم تبارك وتعالى بصفاته التي نطق بها كتابه وتنزيله وشهد له بها رسوله على ما وردت به الأخبار الصحاح ونقله العدول الثقات ولا يعتقدون تشبيها لصفاته بصفات خلقه ولا يكيفونها تكييف المشبه ولا يحرفون الكلم عن مواضعه تحريف المعتزلة والجهمية)) (نقض النطق، ص:4) ”اہل حدیث کتاب و سنت سے تمسک کرتے ہیں اور خدا کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو کتاب و سنت میں آئی ہیں یا صحیح احادیث میں ثقات سے منقول ہیں، نہ اس میں تشبیہ ہے نہ کیفیت کا بیان، نہ معتزلہ اور جہمیہ کی طرح تحریف۔ “ اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: ”اہلحدیث اچھی باتوں میں تمام لوگوں کے ساتھ متفق ہیں۔ بعض چیزوں میں عام لوگوں سے ممتاز ہیں، ان کے مخالف معقول، منقول، قیاس، رائے، کلام، نظر و استدلال، حجت، مجادلہ، مکاشفہ، وجد و ذوق وغیرہ سے اہلحدیث کا مقابلہ کریں تو اہلحدیث ان تمام طریقوں میں ان سے بدرجہا بہتر اور اعلیٰ ہیں۔ “