کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 362
اور بے شمار نو جوان لوگوں پر بولا جانے لگا جو علم سے بالکل خالی تھے۔ “
یہ امام سخاوی کی رائے تھی۔ مولانا عبدالحی فرماتے ہیں:
((ثم صارت الان لتباًلمن تولی منصب الفتویٰ وان عریٰ عن لباس العلم والتقوی)) ((الفوائدالبهية، ص:101)
”اب یہ ان لوگوں کا لقب بن گیا جنھیں اتفاقاً فتوی نویسی کا موقع مل گیا، خواہ علم و تقویٰ سے کل طور خالی ہوں۔ “
غرض آٹھویں صدی تک جمود کا مرض چھا گیا۔ اہل حق ضرورموجود تھے۔ لیکن ان کی آواز کو غیر وقیع کردیا گیا، ان کی کاوشیں نہاں خانوں کی نذر ہو گئیں۔ اگر کہیں موقع ملا تو بعض کتابیں نذر آتش کردی گئیں۔ لوگوں کو ان کے مطالعہ سے روکا گیا اور ایسے لوگوں کو شدید سزائیں دی گئیں، قید کیا گیا کوڑے لگائے گئے۔ آٹھویں صدی کے پس و پیش کچھ تیز اور تند آوازیں اس جمود کے خلاف اُٹھیں بعض مجددین نے ارباب جمود کے ساتھ ووقت کی حکومت کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جو اپنی سیاسی مصالح کی بنا پر ان غلط نواز حضرات کی ہاں میں ہاں ملا دیتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، حافظ ابن القیم، علامہ ابن دقیق العید، ان بزرگوں نے اس جامد فضا میں ارتعاش پیدا کردیا اور اصلاح کے ایک ہمہ گیر پروگرام کی طرف متوجہ کردیا۔ ان حضرات نے پھر سے مسلک اہل حدیث سے پردہ اٹھایا۔ ائمہ حدیث اور فقہائے محدثین کی روش سے عوام کو آگاہ کیا، ان کی کتابوں میں مسلک اہل حدیث کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔
٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ منہاج السنہ میں فرماتے ہیں:
((ومن اهل السنته مذهب معروف قبل ان یخلق اللہ لبا حنیفته وما الکاوالشافعی واحمد فانه مذهب الصحابته تلقرہ عن بینهم ومن خالف ذالك کان مبتدعاً عند اهل السنته والجماعته)) (2/252)
”اہل سنت کا ایک مسلک ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی پیدا ئش سے بھی پہلے دنیا میں