کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 361
امام ابو جعفر الطحاوی (321ھ)کی مختصر اور معانی الآثر ملا حظہ فرمائیں، امام ابن تیمیہ کو ان کی روش پر اعتراض ہے کہ وہ حنفیت کی نامناسب حمایت فرماتے ہیں۔ ائمہ حدیث کی نظر میں وہ متعصب شمار ہوتے ہیں۔ بیہقی نے سنن کبریٰ معلوم ہوتا ہے انہی کے جواب میں لکھی، لیکن آپ ان دونوں کتابوں کو ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ امام طحاوی کی روش آج کے دیوبند سے بالکل مختلف ہے۔ وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف فرماتے ہیں۔ کبھی صاحبین کا قول اختیار فرماتے ہیں، کبھی ان سے کسی ایک کے ساتھ اتفاق فرماتے ہیں۔ بعض مقامات پرامام شافعی کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں۔ چنانچہ امام صاحب اور صاحبین”ضب“ کو حرام سمجھتے ہیں۔ امام طحاوی فرما تے ہیں : ((و نحن لانرى بأكله بأسا)) (مختصر الطحاوي، ص:441) ”ہم گوہ کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ “ امام طحاوی اونٹ کے پیشاب اور گھوڑے کو حلال سمجھتے ہیں۔ (مختصر الطحاوي، ص:434) یہ چوتھی صدی کے اس امام کا عمل ہے جسے متعصب سمجھا جاتا تھا۔ آج کے حضرات دیوبند غور فرمائیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں؟ غرض پانچویں اور چھٹی صدی میں عصبیت اور جمود کے بادل اور بھی گہرے ہو گئے اور محققین کی شدید قلت محسوس ہونے لگی۔ نمائشی القاب اور فقہی موشگافیوں مدار علم قرارپائیں، اور قربیاً آٹھویں صدی تک یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔ مولانا عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ بحوالہ سخاوی ”شیخ الاسلام“ کے لفظ کے استعمال کے متعلق فرماتے ہیں: ((ثم اشتهر بها جماعة من علماء السلف حتى ابتذلت على رأس المائة الثامنة فوصف بها من لا يحصى و صار لقبا لمن ولي القضاء الأكبر ولو عرى من العلم والسن فإنا لله و إنا إليه رجعون)) ”ائمہ سلف کے بعد شیخ الاسلام کا لقب آٹھویں صدی ہجری میں ذلیل ہو گیا