کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 360
”لوگ چوتھی صدی سے پہلے کسی خاص شخص کی تقلید پر جمع نہیں تھے۔ “
اس کے بعد ابو طالب مکی کی ”قوت القلوب “(2/36)سے ذکر فرمایا کہ شخصی تقلید اور فقہیات کے مجموعے سب محدث ہیں۔ اس کے بعد شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ دوسری صدی کے بعد کسی قدر تخریج مسائل کا رواج ہوا۔ چوتھی صدی تک بھی لوگ ایک امام کی تقلید کے پابند نہ تھے۔ اجماعی مسائل میں وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی پابندی فرماتے۔ نماز، روزہ، وضو، وغیرہ کے تمام مسائل اپنے شہر کے علما سے بلا تخصیص ریافت فرما لیتے:
(( و اذا وقعت لھم واقعة استفتوا فیھا ای مفت وجددوا من غیر تعیین مذھب و کان من خیر الخاصة انه کان اھل الحدیث منھم یشتغلون بالحدیث)) (1/162)
”اگر کوئی واقعہ ہو جاتا تو بلا تعیین کسی مفتی سے دریافت فرما لیتے، اور خواص کا یہ حال تھا کہ اہل حدیث، حدیث می مشغول ہوتے۔ احادیث اور آثار صحابہ سے انھیں اتنا ذخیرہ میسر آجاتا، جس سے انھیں کسی اور چیز کی ضرورت ہ رہتی، نہ وہ اقوال رجال کی طرف رجوع ہی فرماتے۔ “
دوسری صدی تک ائمہ حدیث کا اثر غالب تھا، عوام اسی مسلک کے پابند تھے۔ تیسری اور چوتھی صدی میں اس کے ساتھ تقلید کی آمیزش ہونے لگی۔ یہ تقلید از قسم جمود نہ تھی۔ اس کا انداز تلمذ اور درس و تدریس کے اثرات سے زیادہ نہ تھا۔ عقیدت تھی۔، لیکن عصبیت نہ تھی۔ علم کم ہو رہا تھا سنت کے حفظ و ضبط سے عوام گھبراتے تھے اور مشہور ائمہ کی آرا اور اجتہادات پر عمل روز بروز بڑھ رہا تھا۔ چوتھی صدی کے اواخر میں تقلید کی رسم عام ہو گئی۔ جمود اور عصبیت کے آثار پیدا ہو گئے۔ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ، ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ، ابو طالب مکی صاحب قوت القلوب، ابو شامہ مؤلف المؤمل اور شاہ ولی اللہ صاحب رحمہم اللہ کے ارشادات بھی قریباً اسی طرح ہیں، جن کا اوپر تذکرہ ہوا۔