کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 36
” اس سے دو چیزوں کی وضاحت مقصود ہے:اول یہ کہ یہ نظریہ نیا نہیں، بڑے فحول اور اکابر اہل علم نے تقلید سے پرہیز اور ائمہ سلف کی راہ کو پسند فرمایا ہے۔ دوسرے یہ کہ تقلید ِ شخصی پر کسی اجماع نہیں ہوا، بلکہ ہردور میں اہل علم تحقیق وتفص کے طلبگار رہے، اس مسلک کے لیے”وہابیت“ کا عنوان بڑا جھوٹ ہے۔ وہابیوں کا مرکزی مقام نجد اور حجاز ہے، لیکن وہ لوگ اکثر حنبلی ہیں، خال خال ان میں سلفی ہیں۔ “الخ
امام ذہبی، امام شوکانی اور نواب صدیق حسن رحمہم اللہ کے حوالے سے محققین کی جو فہرست مصنف نے نقل کی ہے، اس میں پہلا نام بقی بن مخلد(206ھ) کا اور آخری نام سید محمد بن اسماعیل امیر یمانی کا ہے، ان کاسنہ وفات 1182ھ ہے، اس کےبعد مصنف کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
”ان ائمہ کے اسمائے گرامی اور سنین وفات پر توجہ فرمائیے اور غور کیجئے کہ یہ حضرات ترک تقلید کےباوجود اما م ہیں۔ ہم اور آپ نقلِ احادیث میں ان کے علوم سے استفادہ کرتے ہیں۔ حدیث کے دفاتر میں ان کی نقل پر اعتماد کرتے ہیں، استدلال کرتے ہیں، فروع کے ماخذ میں ان ہی کے علم پر یقین کرتے ہیں۔ پھرآج اگر کوئی شخص ائمہ اربعہ۔ رضوان اللہ علیہم۔ میں سے کسی امام کی کلی طور پر تقلید نہ کرے تو اکابرِ اہل علم کی نظر میں وہ مجر م قرارپاتا ہے۔ بریلی اور دیوبند والےاس پر ناراض ہوتے ہیں، طرح طرح کے القاب سے اس کو یاد فرمایا جاتا ہے۔ یہ مسلک بھی اپنی قدامت کے لحاظ سے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مسالک سے کسی طرح کم نہیں، بلکہ ان حضرات نے اپنے مسالک میں ائمہ حدیث ہی سے استفادہ کیا ہے۔ “(ص:137)