کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 359
تقلید اور جمود کا دور: تقلید اور جمود کی ان تیرہ صدیوں میں کیا کیفیت رہی؟ اس کے متعلق صحیح اور قطعی رائے اور اس کے مدوجزر کا جائزہ لینے کے لیے گہرے اور عمیق مطالعے کی ضرورت ہے۔ ائمہ کی تصریحات اور مذہبی فرقوں کے عروج و زوال کی تاریخ اور مختلف فرق اور ملل و محل کی کتابوں کے سر سری جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ خیر میں تمام علما مجتہد نہیں تھے، لیکن ائمہ اجتہاد کی کافی تعداد پائی جاتی تھی، اور ایسے اہل علم جو درجہ اجتہاد کو تو نہیں پہنچے، لیکن مسائل اور دلائل پر بقدر ضرورت ان کی نظر تھی، ان کی تعداد بھی کافی تھی۔ احادیث کے حفظ کے ساتھ انھیں اللہ تعالیٰ نے تفقہ بھی عطا فرمایا تھا۔ عوام، جو دنیوی مشاغل کی وجہ سے علمی مشغلہ نہ رکھ سکے، بڑی تعداد میں موجود تھے، ان میں سب بوقت ضرورت اپنے سے بہتر علماء کی طرف توجہ فرماتے۔ ایک عام آدمی کے لیے یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ مسائلہ دریافت کرنے کے لیے پہلے مجتہد کی تلاش کرے۔ وہ بچارا تنا عالم ہوتا تو اسے دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوتی؟وہ جسے عالم سمجھتے، اس سے دریافت کرتے، نہ اجتہاد کا امتحان لیتے نہ مجتہد کا تعین کرتے، بلکہ تقلید کی اقسام شخصی اور غیر شخصی سے وہ لوگ نا آشنا تھے۔ جسے قرآن و سنت اور درس و تدریس میں مشغول دیکھتے، اس سے دریافت فرماتے۔ دینی فطرت کی بنا پر اطمینان ہو جاتا تو عمل کرتے ورنہ دوسرے عالم کی طرف رجوع کرتے، نہ مجتہد کے لیے بے قرار ہوتے نہ کسی ایک عالم کی تعیین فرماتے۔ یہ بالکل فطری اور طبعی سا طریقہ تھا، جس کے وہ پابند تھے۔ اس روش کی موجودگی میں فرقہ پروری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شاہ ولی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بنا پر فرمایا: (اعلم ان الناس کانوا قبل المائة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد بعینه)) (حجة الله البالغه:1/122)