کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 354
”اہل حدیث اور آئمہ سنت کا عقیدہ ہے اللہ تعالی کا اقرار، ملائکہ اور فرشتوں اور رسولوں کا اقرار اور کتابوں کا اقرار جو اللہ تعالی نے نازل فرمائیں اور جو ثقہ راویوں نے روایت کیا۔ اس میں وہ کسی چیز کو رد نہیں کرتے، اللہ تعالی اکیلا ہے اور بے نیاز ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ الخ“ اس کے بعد آگے اہل حدیث کے عقائد کا تذکرہ کئی اوراق میں فرمایا۔ یہ تذکرہ معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقوں کے بالمقابل فرمایا جس کا مطلب ظاہر ہے کہ اہل حدیث أئمہ اعتزال اور متکلمین کے مد مقابل ہیں۔ ٭ ابن ندیم نے علماء عراق، ائمہ شوافع، موالک، امام داؤد ظاہری فقہائے شیعہ کے مسبوط تذکرہ کے بعد فقہاء المحدثین و اصحاب الحدیث کا تذکرہ فرمایا۔ فن سادس سے قریباً 64 فقہائے حدیث کا تذکرہ فرمایا ان میں امام بخاری، سفیان ثوری، ابن ابی ذئب، سفیان بن عنید، ابن ابی عروبہ، اسماعیل بن عبید، عبداللہ بن مبارک، امام احمد، عثمان بن ابی شیبہ ترمذی، علی بن مدینی، یحی بن معین، ابو داؤد، مسلم وغیرہ علماء کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ظاہر ہے فقہاے حدیث اگر مکتب فکر نہیں پھر انہیں ائمہ عراق وغیرہ سے الگ عنوان کے ماتحت کیوں ذکر فرمایا حالانکہ امام ابو جعفرطماوی وغیرہ حفاظ حدیث موجود ہیں لیکن ہر حافظ حدیث اہل حدیث نہیں ہو سکتا۔ ٭ امام محی الدین یحییٰ بن شرف النوادی صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں: ((ان الواجب ضربته للوجه و الکفین دهو مذهب عطاء ومکحول والاوزاعی واحمد اسحاق وابن المنذ رعامة اصحاب الحدیث )) (صحیح مسلم مع شرح النووی 1/1010) ”تیمم میں چہرے اور ہاتھوں کے لیے ایک ضرب ضروری ہے۔ عطاء مکحول اوزاعی احمد اسحاق اور ابن منذر اور ائمہ اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ “ طلاق الحائض کے متعلق فرماتے ہیں کہ مطلق کو رجوع کے لیے کہنا چاہیے۔