کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 353
کے قابل نہیں۔ “ اسی کتاب میں آگے چل کر اہل تصوف کا ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ((كلامهم في طريقي العبارة والإشارة على سمت أهل الحديث دون من يشتري لهو الحديث )) ”ان کا انداز گفتگو اور ارشادات اہل حدیث کی طرح ہیں، اہل لہو و لعب کی طرح نہیں “ اسی طرح ان دونوں فرق کا ذکر ص 312، 302، 114، 1313 میں مرقوم ہے اس کتاب میں اہلحدیث کا ذکر اکثر مقامات پر آیا کہیں بطور روات حدیث اور کہیں بطور مکتب فکر ؎ خذ البطن هرشا أو قفاها فإنه كلاجانبي هرشا لهن طريق [1] یہ لوگ دین کا ہر کام کرتے رہے لیکن کسی نہ کسی فرقہ کی تاسیس کی نہ کسی دھڑے کے لیے دعوت دی نہ ہی اشخاص کی محبت ان پر اس قدر غالب ہوئی جس سے دوسرے کی تنقیص لازم آئی ان کی نظر اشخاص سے زیادہ دلائل پر رہی۔ شخصی تنقید سے زیادہ انہوں نے مسائل کی تحقیق فرمائی۔ ٭ امام ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری (320ھ ) مقالات الإسلامیین میں فرماتے ہیں : ((جملة ما عليه أهل الحديث و السنة الإقرار بالله و ملائكته و كتبه ورسله و ما جاء من عند الله و ما رواه الثقات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يردون من ذلك شيئا و إن الله سبحانه واحد صمد لا إله غيره)) ( ص 42)
[1] ۔ ہرشا کا پیٹ پکڑیا گدی، یہ دونوں ہی ہرشا کے دو پہلو اور ان کا راستہ ہیں۔ (ہرشامکہ اور مدینہ کے درمیان میں ایک وادی کا نام ہے۔