کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 351
ایوان میں ان کے صدر مدرس عبد الرحمٰن بن العدیم حلبی تھے اور حدیث مشرقی ایوان میں درس دینے لگے ان کے صدر مدرس شیخ شرف الدین عبد المؤمن بن خلف دمیاطی تھے“
یہ ساتویں صدی ہے اس میں بھی شاہی مدرسہ میں دوسرے مکاتب کے مقابل اہل حدیث کے لئے مستقل ایوان ہے۔
مقریزی فرماتے ہیں کہ یہ مدرسہ اب بھی موجود ہے۔ کسی قدر فرسودہ ہوچکا ہے۔ حنفی اور شافعی اس کی نظامت سے متعلق دست وگریبان ہوتے رہتے ہیں۔
٭ مقریزی اہل مصر کے مذاہب اور ارباب مذاہب کی تبدیلیوں اور اس کے اسباب کا ذکر فرماتے ہیں:
((وكانت أفريقة الغالب عليها السنن والآثار إلى أن قدم عبد الله بن فروج أبو محمد الفارسي بمذهب أبي حنيفة. اھ )) (الخطط1/144)
”افریقہ میں ابتداء میں سب لوگ سنن وآثار (مسلک اہل حدیث) کے پابند تھے۔ یہاں تک شیخ عبد اللہ بن فروج حضرت امام ابو حنیفہ کا مسلک لے کر آگئے۔ “
٭ مقریزی افریقہ میں مالکی مذہب کی اشاعت کے متعلق فرماتے ہیں:
((وصار القضاء في أصحاب ملحنون دولا يتصاولون على الدنيا تصاول الفحول على الشول ))
(ص1/ 144)
یعنی سحنون کے رفقاء محکمہ قضاء پر اس طرح حملہ آور ہوتے جس طرح نراونٹ مادہ پر۔
اس کے بعد آگے حنفی مذہب کی اشاعت کے متعلق لکھا ہے کہ قاضی ابو یوسف کا مرہون منت ہے۔ اہل حدیث بےچارے اس جنگ میں کہاں کامیاب ہوتے جب انہوں نے کسی حکومت کی سرپرستی ہی قبول نہیں فرمائی۔ شعرانی تمام ائمہ سنت کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں سب سے عقیدت ہے اس کے اظہار میں وہ بڑے ہی وسیع الظرف ہیں۔ میزان خضری میں امام شافعی سے نقل فرماتے ہیں: