کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 350
عبارت نقل فرمائی اور فقہ العراقی اور فقہ الحدیث کا تذکرہ فرمایا، پھرتقلید اور عمل بالحدیث پر مختصر تبصرہ فرمایا، اور مذاہب ائمہ کی اشاعت اور کتب طبقات کی عصبیت کا تذکرہ فرمایا، وہ خواہ مخواہ ہر آدمی کو ادنیٰ ممارست اور توافق سے اپنے مذہب میں شمار کر لیتے ہیں، اورپھران اقطار اور بلاد کا ذکرفرمایا جہان یہ مذاہب عام اور شائع ہوں اور اہل حق کی کتابوں کوکس طرح طاق نسیاں کی نذر کیاگیا فرماتے ہیں: ((فلم یبق الامذھب اھل الرای من العراق و اھل الحدیث من الحجاز)) ( ص:2/544) ”اسی تعصب کی دستبرہ کے باوجود اہل الرائے عراق میں اور اہل حدیث حجاز باقی رہ گئے“ ٭ تقی الدین احمد بن علی مقریزی (845ھ) نے فرمایا۔ جب ملک ظاہر بیبرس بند قداری نے 662ھ میں مدرسہ ظاہریہ کی بنیاد رکھی اور اس کے مصارف کے لئے بہت بڑا وقف کیا۔ اس میں مختلف مکاتب فکر کی تدریس کے لئے مختلف ایوان بنائے بنائے جس کی تفصیل اس طرح ہے۔ ((وجلس أهل الدروس كل طائفة في إيوان منها الشافعية بالإيوان اقلبلي ومدرسهم تقي الدين محمد بن حسن بن رزين الحموي والحنفية بالإيوان البحري مدرسهم الصدر مجد الدين عبد الرحمن بن الصاحب كمال الدين عمر بن العديم الحلبي وأهل الحديث بالإيوان الشرقي ومدرسهم الشيخ شرف الدين عبد المؤمن بن خلف الدمياطي. اھ )) (الخطط للمقریزی 2/217) ”تمام علماء اپنے اپنے ایوان میں درس دینے لگے۔ شافعی سامنے کے ایوان میں تھے۔ ان کے صدر مدرس تقی الدین محمد بن حسن حموی تھے اور حنفی سمندری