کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 35
دے، وہاں کوئی اصل قبول نہیں کی جاسکتی۔
”اگر اصول ِ فقہ کو طالب علمی کی صراحت سے پڑھا جائے تو واقعی اس کی گرفت سخت ہوتی ہے۔ اگرذرا گہرائی سے دیکھاجائے تو یہ اصول اس قدروزنی نہیں رہتے۔ شاہ صاحب ایسے اصول کیسے قبول فرماسکتے ہیں؟ اسی لیے انھوں نے بری جرأت سے فرمایا کہ مجھے فقہائے محدثین کی راہ پسند ہے اور یہ نصیحت انھوں نے اپنے تلامذہ اور اپنے متعلقین کو تلقین فرمائی۔ “(ص:110)
قدامت ونسبت کی بحث:
کس جماعت کا وجود کب سے ہے اور کس جماعت کی نسبت کدھر ہے؟یہ بحث مذہبی حلقوں میں اُٹھتی رہتی ہے۔ اہل قلم اگر تاریخی شواہد کی روشنی میں اُسے سلجھائیں تو چنداں مشکل نہیں، لیکن اس بحث میں جب کچھ غیر سنجیدہ حضرات داخل ہوجاتے ہیں اور تحقیق کے بجائے ادعا او رتعصب کی عمل داری شروع ہوجاتی ہے اور مخاطب کو کسی بھی طرح زیر کرنا مقصود ہوجاتا ہے تو پھر معاملہ سنجیدگی کے دائرے سے نکل کر تعلی وتجریح کی حد میں پہنچ جاتا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد بحث اور تبادلۂ خیال سے کسی طرح کی اُمید باقی نہیں رہتی اور رہنا بھی نہیں چاہیے۔ اس بحث کو مصنف نے شواہد کے ذریعے حل کیا ہے، لیکن پورا کلام نقل کرنا مشکل ہے، ہم صرف بعض چیزیں نقل کرتے ہیں:
”تذكرة الحفاظ“ پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی کے زمانے(748ھ) تک ایسے لوگ موجود تھے، جو شخصی تقلید اور جمود سے پرہیز کرتے تھے۔ کتاب اورسنت کو براہ راست سلفِ امت، صحابہ اور تابعین کی طرح سمجھنے اور سوچنے کی کوشش فرماتے تھے۔ “(ص:135)
مصنف نے ”تذكرة الحفاظ“سے ایک فہرست ائمہ محققین کی نقل کی ہے اور اس کا مقصد ان ا لفاظ میں واضح کیا ہے: