کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 345
رائے ہے یا شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور تاش کبریٰ زادہ کے ارشاد گرامی میں۔
٭ معتزلہ کا خیال ہے کہ پیغمبر کو اجتہاد کا حق حاصل نہیں۔ اشاعرہ اور بعض متکلمین نے بھی ان سے اتفاق کیا۔ تمام آئمہ اصول کا خیال ہے کہ پیغمبر بوقت ضرورت اجتہاد کر سکتا ہے اور اسے وحی اور اجتہاد دونوں پر عمل کی اجازت ہے:
((و هو منقول عن أبي يوسف من أصحابنا وهو مذهب مالك والشافعي وعامة أهل الحديث ))
( كشف الأسرار :3/925 )
”احناف سے امام ابو يوسف، امام شافعی، امام مالک اور عام اہل حدیث کا بھی یہی خیال ہے کہ پیغمبر اپنے اجتہاد پر عمل کر سکتا ہے۔ اھ“
یہاں اہل حدیث کا ذکر ائمہ اربعہ کے ساتھ علماء اصول میں آیا ہے۔ مرسل حدیث کی حجیت کے تذکرہ میں اہل حدیث پر تشنیع کرتے ہیں کہ وہ مرسل کو حجت نہیں سمجھتے:
((وفي رد المرسل تعطيل كثير من السنن فإن المراسيل حمعيت فبلغت قريبا من خمسين جزءا وهذا تشنيع عليهم فإنهم سموا أنفسهم أصحاب الحديث وانتصبوا أنفسهم لحيازة الأحاديث. اھ))
(کشف :3/725)
”مرسل کی حجیت کے انکار سے حدیث کا بڑا ذخیرہ ضائع ہو جائے گا۔ یہ لوگ اہل حدیث کہلا کر حفاظت حدیث کی بجائے حدیث کو ضائع کر رہے ہیں۔ اھ“
اہل حدیث کی یہاں بھی مستقل حیثیت ظاہر ہوتی ہے۔ مرسل کی حجت کی بحث بالکل الگ مسئلہ ہے۔ جس مرسل کو یہ حضرات حجت فرماتے ہیں وہ در اصل حدیث ہی نہیں کہ اس کے انکار سے حدیث کا انکار لازم نہیں آتا۔
٭ علامہ ابن عابدین رد المختار میں لفظ حنفی میں یائے نسبت کے تذکرہ میں فرماتے ہیں:
((إن النسبة إلى مذهب أبي حنيفة وإلى القبيلة وهو بنو حنيفة بلفظ واحد وإن جماعة من أهل الحديث منهم أبو الفضل