کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 343
وہ زیادہ سے زیادہ اپنے مذہب کی صحت اور مخالف کی غلطی کا ظن کر سکتا ہے لیکن اپنے مخالف کو مطلقاً حرام کار نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ کئی مسائل میں ائمہ اربعہ متفق ہیں۔ جب فرعی مسائل ظن ہی کے مقام پر ہیں۔ اس لیے دونوں مخالف فریق صحت اور خطا کا احتمال رکھ سکتے ہیں۔ صحت اور خطا کا یقین نہیں کیا جا سکتا۔ مقلد اور مجتہد زیادہ سے زیادہ صحت اور خطا کا ظن ہی کر سکتے ہیں اس لیے اس میں تعصب کا کوئی مقام نہیں۔
ہمارے زمانہ میں بعض مقلد اربابِ مذاہب کو تعصب کا دورہ ہوتا ہے اور وہ اُلٹی سیدھی باتیں بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ اخلاق سے گری ہوئی بات ہے ان سے بعض حضرات میں اتنا شدید تعصب ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کی اقتداء کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ بھی کئی قبیح اور نامناسب باتیں کرتے ہیں۔ ان لوگوں پر افسوس ہے یہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔ اگر امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہا اللہ زندہ ہوتے تو ان کی ان حرکات کے خلاف سخت ناپسندیدگی اور ان سے بیزاری کا اظہار فرماتے ہیں۔ میں نے لا تعداد آدمیوں کو دیکھا ہے وہ آستینیں چڑھا کر امام شافعی کی مخالفت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ بلا تسمیہ ذبیحہ کو حلال سمجھتے ہیں۔ احناف پر یہ الزام لگایا جاتا ہے وہ شرم گاہ کومس کرتے ہیں اور بے وضو نماز پڑھتے ہیں اور مالکی بسم اللہ کے بغیر نماز پڑھتے ہیں۔ حنبلی زوال سے پہلے جمعہ پڑھتے ہیں اپنا حال یہ ہے کہ وہ ترک نماز کو گوارا کرتے ہیں گھر کے لوگوں کو نماز کے ترک پر سرزنش نہیں کرتے حالانکہ شوافع، موالک، حنابلہ بے نماز کے متعلق قتل کا فتویٰ دیتے ہیں۔
افسوس ہے کیا یہ لوگ فقیہہ ہیں ایسے فقیہوں کو خدا تعالیٰ تباہ کرے تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ ان فرعی مسائل پر تو اتنا زور دیتے ہو اور ہزاروں اجماعی محرمات اور ناجائز ٹیکسوں کی پروا تک نہیں کرتے اور نہ ہی تمہیں اس پر غیرت محسوس ہوتی ہے۔ تمہاری غیرت کا سارا زور ابو حنیفہ اور شافعی کے اختلافات پر پڑتا ہے جس سے افتراق ہوتا ہے اور جاہل تم پر مسلط ہو جاتے ہیں عوام میں تمہاری کرکری ہوتی ہے۔ بے وقوف تمہارے متعلق ایسی