کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 342
اس کے باوجود ایسے بزرگ دنیا میں موجود رہے جو مروجہ مذاہب سے تعلق اور آئمہ کے احترام کے ساتھ اس عصبیت کو ناپسند فرماتے تھے۔ چنانچہ 962ھ میں مولانا احمد بن مصطفٰے تاشبکری زادہ نے مفتاح السعادہ والیسادہ میں فقہ اور فقہاء کے متعلق بڑا معنیٰ خیز ار پُر از معلومات مقالہ لکھا ہے۔ [1]اسکے آخر میں فقہاء مذاہب اور ان کی فرقہ وارانہ عصبیت کے متعلق بڑا دردمندانہ شکوہ فرمایا ہے۔ آج کل دیوبند کی نوآموز پود اسی ڈگر پر جا رہی ہے جس کی شکایت علامہ نے فرمائی ہے۔ خود دیوبند اور اس کی پاک و ہند برانچوں میں تعلیم و تربیت کا انداز اس قدر غلط ہو رہا ہے کہ ان مدارس میں علم اور للہیت کی جگہ تعصب اور فرقہ پرستی پرورش پارہی ہے۔ مختلف فیہ مسائل پر لکھنے کا انداز اتنا غلط ہو رہا ہے کہ اس پر بددیانتی اور خیانت کا شبہ ہوتا ہے۔ تقاریر میں تقویٰ اور عبادت کی بجائے باہم مناقشات بڑھائے جا رہے ہیں۔ مجالس درس میں طلبہ کی ذہنی تربیت بھی عصبیت کے جراثیم ہی سے کی جارہی ہے اور نوآموز حضرات کا یہ غلط رویہ اکابر کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اہل حدیث مدارس میں بھی یہ زہر آلود جراثیم اثر انداز ہو رہے ہیں۔
بریلوی حضرات سے یہ شکایت ہی بے سود ہے ان کے ہاں بظاہر کوئی اصلاحی پروگرام ہی نہیں۔ مذہب کے متعلق چند بدعی تصورات اور عوام کی خوشنودی کے سوا ان کے ہاں مذہب کا کچھ مقصد نہیں۔ علامہ تاشکبری زادہ کا یہ اصلاحی شذرہ دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے لیے مستقبل کی اصلاح میں بے حد مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ عصبیت دراصل علم دریافت کی موت کے مرادف ہے۔ جو شخص حدیث:((اخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ)) [2]کے مفہوم پر غور کرے اور اسے معلوم ہو کہ فرعی مسائل میں اختلاف کی بنیاد ظن پر ہے۔ وہ کسی ایک مجتہد کے حق میں تحکم اور تعصب نہیں رکھ سکتا۔
[1] ۔ دیکھیں۔ مفتاح السعادۃ ومصباح السیادۃ لطاش کبریٰ زادہ(2/263)
[2] ۔ موضوع: یہ ایک موضوع اور بے اصل روایت ہے جس کی سند ہی معلوم نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں :السلسة الضعيفة رقم الحديث(57)