کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 340
استعمال کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان حضرات کو حافظ ابن القیم اغاثۃ اللہفان کے ابتدائی ابواب اور نقد العلم والعلماء ابن جوزی اور شوکانی کے رسالہ ذم الموسوسین کا مطالعہ فرمانا چاہیئے شاید ان کو فائدہ ہو۔
اہل حدیث تو نہ امامت کے شائق ہیں نہ اس مشق کے لیے تیار۔ دراصل یہ سب امراض اس دور کے ہیں جب ملک میں پانی کی قلت تھی۔ ورنہ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔
وہم اور قلت علم کی پیداوار ہے۔ اور عوام کے ذہنوں مین عصبیت اور نفرت پیداکرنے کا ایک ذریعہ جہاں اتباع ائمہ میں تقلید کے باوجود اس قدر سختی برتی گئی ہو اور جمہور علماء ایک دوسرے کے خلاف اس قدر غلو فرماتے ہوںوہاں بیچارے اہل حدیث ان حضرات سے کس وسعت ظرف کی امیدکر سکتے ہیں اور یہ بزرگ کب اجازت دے سکتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی اور مسلک بھی دنیا میں زندہ رہے۔ اسی عصبیت کا نتیجہ ہے کہ اچھے پڑھے لکھے حضرات فرماتے ہیں کہ اہل حدیث کوئی مکتب فکر ہی نہیں یہ محض حفاظ کی جماعت تھی فقہ، درایت سے خالی تھی یہ عصبیت قرون وسطےٰ میں اہل تقلید کے تغلب اور حکومت اور اور اربابِ اقتدار کی ساسی مصالح کی پیداوار ہے۔ اور درباری حضرات کی چیرہ دستیوں نے اس مسلک کو تاریخ کے اندھیروں اور عصبیت کی دلدلوں میں دبا کر رکھ دیا۔
اہل ِحدیث تاریخ کے مختلف ادوار میں:
ائمہ اربعہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ولادت اور وفات کے سنین پر غور کیا جائے تو 80ھ سے شروع ہو کر امام احمد کی وفات 241ھ تک ختم ہوتا ہے۔ ان ایام کے بعد برسوں اس جمود اور تقلید کا پتہ نہیں چلتا جسے آج کل واجب کہا جارہا ہے اور اس سے اعراض کو بے دینی وغیرہ القاب سے ذکر کیا جاتا ہے۔ اس پر فخر یا اس کی طرف دعوت کسی صورت بھی چوتھی صدی سے پہلے نہیں ہوسکتی۔ فتح ہند سے پہلے پہلا لشکر جو ساحل ہند پر اترا اس وقت ان مروجہ مذاہب کا نام و نشان نہ عرب میں تھا نہ عجم میں۔ تقلید ِآئمہ کے موجودہ انداز سے ذہن بالکل خالی تھے۔