کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 338
ایک اور محاذ: اقتداء بالمخالف کے متعلق متقدمین فقہاء کے چھ قسم کے خیالات منقول ہیں۔ جن کا تذکرہ مولانا عبد الحی رحمتہ اللہ علیہ نے حواشی ہدایہ میں فرمایا ہے۔ [1] اور مطلقا جواز کو راجح فرمایا ہے۔ ہمارے ملک میں شوافع کی جگہ اہل حدیث کو ملی ہے۔ گو ہمارے ہاں احناف اور شوافع کا احترام برابر ہے اس لئے یہاں بھی اقتداء بالمخالف کا اثر اہل حدیث پر پڑتا ہے بلکہ ہمارے بزرگ کچھ زیادہ ہی تیز ہوجائے ہیں۔ بریلوی حضرات تو ’’لا مساس‘‘ کے قائل ہیں وہ کسی موحد کی اقتداء نہیں فرماتے اہل حدیث ہو یا حنفی۔ ان کے ہاں مذہب چند رسوم اور نعروں کا نام ہے اور بس۔ پھر ان کا انداز گفتگو علم واستدلال پر مبنی نہیں بلکہ محض جذباتی ہے۔ ہمارے دیوبندی حضرات بعض ان مسائل کی آڑ لیتے ہیں جن کی رعایت کی امید شوافع سے کی گئی ہے لیکن وہ اختلافات اب کچھ موزوں نہیں معلوم ہوتے۔ اس لئے ایک نیا محاذ کھولا گیا۔ ہمارے یہ دوست فرماتے ہیں کہ اہل حدیث کی اقتداء اس لئے درست نہیں کہ یہ استنجاء میں ڈھیلا استعمال نہیں کرتے ان کی طہارت درست نہیں۔ یہ عذر بے حد کمزور بھی ہے اور غلط بھی۔ یہ تو معلوم ہے کہ طہارت کے بغیر نماز کو کوئی بھی درست نہیں سمجھتا۔ طہارت اہل حدیث کے نزدیک بھی اتنی ہی ضروری ہے جس قدر احناف کے نزدیک فرق صرف طہارت کے طریقہ میں ہے۔ صرف پانی سے ہوگی یا صرف مٹی سے یا پانی اور مٹی دونوں سے۔ تمام ائمہ متفق ہیں کہ طہارت تینوں طرح ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی مٹی اور پانی دونوں استعمال کرے تو بہتر ہے۔ مطلق طہارت کے سوا ان طریقوں سے کوئی طریقہ امامت اور اقتدا کے لیے شرط نہیں۔ اب مٹی کے استعمال کو ضروری قرار دینا تعجب ہے۔ یہ ذہنی بغض اور عصبیت کی ترجمانی تو کر سکتا ہے۔ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ یہ ہمارے ملک کی پیداوار ہے۔
[1] ۔ حاشیۃ ھدایۃ(1/126) (مؤلف)