کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 336
ترک فرمادی وہاں کے امام اور مجتہد اشعری اور ما تریدی قرار پائے۔ طحطاوی فرماتے ہیں: ((ولا خصوصية لمذاهب الشافعي بل إذا صلى حنفي خلف أي مخالف لمذهبه كذلك)) (1/281) (ج1 ص281) اس تفصیل میں شافعی کی کوئی تخصیص نہیں۔ کسی مخالف کے پیچھے بھی کوئی حنفی نماز ادا کرنا چاہے اس کی تفصیل اسی طرح ہے۔ ہدایہ اور اس کی شرح کفایہ مطبوعہ بمبئی میں سابقہ تفصیل کسی قدر اختصار سے مرقوم ہے۔ مگر مقصد میں کوئی فرق نہیں۔ [1] گفتگو کے لئے ووسرا محاذ: شوافع اور دوسرے ائمہ سنت کے ساتھ اقتدار میں یہ احتیاط اور تنگ نظری طبعاً اچھی معلوم نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے گفتگو کے لئے ایک اور محاذ بنا لیا گیا کہ اس صورت میں جب امام اور مقتدی میں فرعی اختلاف ہو تو اقتدار میں ایثار امام کو کرنا چاہئے یا مقتدی کو اور رعایت کی ذمہ داری ہم پر ہے یا مقتدی ازرہ شفقت درگزر کرے۔ علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں؛ ((ہذا بناء علی ان العبرۃ لواری المقتدی وھاالاصلح وقیل لرای الامام علیہ جماعۃ)) (رد المختار:1/588) یہ احتیاط کا حکم اس بنیاد پر ہے کہ اقتداء میں مقتدی کی رائے کا اعتبار یا امام کی رائے کا صحیح یہ ہے کہ مقتدی کی رائے ہی معتبر ہو گی۔ ایک جماعت کا خیال ہے امام کی رائے پر اعتماد ہو گا۔ علامہ بدر الدین عینی اور صاحب ہدایہ کی بھی یہی رائے ہے لیکن ابن عابدین فرماتے ہیں کہ صحیح پہلی بات ہے، یعنی امام کو مقتدی کی رعایت کرنا چاہئے۔ گفتگو کا محاذ ضرور بدل گیا۔ آئمہ کی بجائے موضع بحث امام اور مقتدی ہو گئے لیکن شناعت اور بڑھ گئی یعنی امام کو مقتدی کے تابع فرما دیا گیا یعنی تانگہ گھوڑے کے آگے باندھ دیا گیا۔
[1] ۔ دیکھیں:الھدایۃ مع شرح الکفایۃ(1/311)