کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 335
اہل بدعت اور ہوا کے متعلق وہ پیش بندی اور احتیاط نہیں برتی گئی جو سنّی مخالفین خصوص ((ولا شاكا في إيمانه))کہہ کر ائمہ شوافع پر اور اہل حدیث پر جو تعریض کی گئی ہے بڑی نا مناسب اور بے انصافی پر مبنی ہے۔ اگر واقعی امام شافعی اور ان کے اتباع کا ایمان مشکوک ہے ان کو اپنے ایمان میں شبہ ہے تو کسی طرح بھی ان کی اقتداء درست نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تمام ائمہ حدیث اور ائمہ سنت ایمان میں استثناء کے قائل ہیں شاكا في إيمانه سے تعبیر کیا گیا ہے۔ [1]
شوافع کا قیام:
حالانکہ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اتباع سچے سنی ہیں۔ ان کے مسلک کی حقانیت کا اعتراف علمائے احناف نے بھی فرمایا ہے۔ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((فهذه المذاهب المختلفة للأئمة ومجتهدي الأمة كلها تتصل بأنهار الصحابة، وهي متصلة بمنبعها، وهو حضرة الرسالة، فكلهم على هدى، من اقتدى بإيها اهتدى، ومن توهم أن واحدا منها على هدى، وسائرها في ضلالة، فقد وقع في حفرة الضلالة)) (الفوائد البهية:ص:9 )
”ائمہ مجتہدین کے مذاہب کا تعلق صحابہ سے ہے اور وہ نوبت کے منبع سے بہہ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کو حق پر کہنا اور باقی کو گمراہ سمجھنا خود گمراہی ہے۔ “
اس توثیق کے بعد شوافع کے متعلق یہ احتیاط اور اقتداء تو یہ شرائط بالکل بے محل ہیں اور انصاف سے بمراحل دور، حالانکہ معلوم ہے کہ اعتزال وتجہم سے نہ احناف بچ سکے نہ موالک اور شوافع! بلکہ ان حضران نے عقائد میں ان ائمہ اجہتاد کی راہ ہی
[1] ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:کتاب الاعتقاد للبیھقی(ص، 182) السنۃ المخلال(3/572) السنۃ لعبداللہ بن احمد(1/347)