کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 334
سکے، پہلے ہو یا پیچھے۔ پھر مخالف کی اقتداء نہیں کرنی چاہئے۔ غرض علامہ شامی نے اقتداء کے متعلق فقہاء ومذاہب کی آراء کا تذکرہ بڑی تفصیل سے فرمایا ہے۔ اور حرمین کے تعامل کے پیش نظر اجازت دی ہے کہ اکر اپنے مذہب کا امام مل سکے تو شوافع کی نماز میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے بالمقابل بدعتی اور فاسق کی امامت کو مکروہ تنزیہی فرمایا ہے۔ در المختار 584/1)میں ہے ويكره تنزيها الخ اور قاضی خان میں فرماتے ہیں: ((ويصح الاقتداء بأهل الهواء إلا الجهمية والقدرية والرافضي الغالي ومن يقول بخلق القرآن)) (شامی:1/76، مطبوعہ مصر) جہمیہ، قدریہ، غالی روافض اور قائلین خلق کے علاوہ باقی اہل ہوا فرقوں کی اقتداء صحیح ہے۔ نیز فرماتے ہیں: ((إذا صلى الرجل خلف فاسق، أو مبتدع يكون محرزا ثواب الجماعة )) (1 هـ (1/77) ”اگر فاسق اور بدعتی کی اقتداء کرے تو اسے جماعت کا ثواب مل جائے گا۔ “ شامی 1/588اور طحطاوی 1/224 میں ہے کہ بدعت مکفرہ نہ ہو تو اقتدا درست ہو گی، ورنہ نہیں۔ علامہ کاسانی نے البدائع والصناع میں بدعت کے متعلق زیادہ وضاحت سے لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ امام ابو یوسف بدعتی کے پیچھے علی الاطلاق نماز ناپسند فرماتے ہیں لیکن کاسانی اس کی بھی یہی توجیہ فرماتے ہیں۔ ((والصحيح إنها إن كان هوى يكفره لا تجوز، وإن كان لا يكفره تجوز)) (1/157) ’’صحیح یہی ہے کہ اگر بدعت مکفرہ نہ ہو تو اقتداء درست ہے۔ ‘‘ فقہاء کرام کے ان گرامی قدر ارشادات سے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے۔ کہ