کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 333
”میرا ولی رحجان یہ ہے کہ اگر شافعی امام سے کوئی مفسدہ ظاہر نہ ہو تو اس کی اقتداء درست ہے“ علامہ بیری اپنے رسالہ میں فرماتے ہیں کہ شافعی امام کی اقتداء سے اکیلے پڑھنا افضل ہے کیونکہ وہ نماز میں ایسے کام کرے گا جن سے نماز لوٹانا یا ضروری ہو گا یا مستحب ہو گا۔ خیر الدین آملی شافعی سے منقول ہے کہ اگر اپنا ہم مذہب مل جائے تو پھر دوسرے کی اقتداء مکروہ ہے البتہ اکیلے پڑھنے سے اقتداء کرنا افضل ہے۔ یہی فتویٰ رملی کبیر استوی اور سبکی سے بھی منقول ہے۔ شیخ خیر الدین فرماتے ہیں:۔ ((والحاصل ان عندهم فی ذالک اختلافا وکل ما کان لهم علة فی الاقتداء بنا صحة فساد افضلیة کان لنا مثله علیهم )) (شامی:1/588) ”حاصل یہ ہے کہ شافعی ہماری اقتداء کے متعلق صحت، فساد یا افضلیت کے متلق جو راہ اختیار کریں ہم بھی وہی کہیں گے۔ “ مندرجہ ارشادات سے ظاہر ہے کہ دین کی بجائے حضرات فقہائے کرام کی باہمی رقابت کار فرما ہے۔ اس کے بعد علامہ شامی نے ایسے مقامات کا ذکر فرمایا ہے جہاں مخالف اور موافق حضرات کی متعدد جماعتیں ہوتی ہوں۔ بعض نے فرمایا اگر پہلی نماز شوافع کی ہو تو اس میں شامل ہو جانا چاہیے۔ یہی افضل ہے لیکن علامہ ابراہیم بیری فرماتے ہیں اگر اپنے مذہب کی جماعت نہ ملے تو اکیلے پڑھنا افضل ہے شافعی کی اقتداء نہ کرے۔ علامہ سندھی رحمہ اللہ امام ابن الہام کے شاگرد ہیں کہ شافعی اگر رعایت بھی کرے تو بھی بہتر یہ ہے کہ اکیلا پڑھے اور اقتداء نہ کرے۔ اس کے بعد علامہ قاری کی رائے کا ذکر فرمایا ہے کہ اگراپنی جماعت مل