کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 332
2۔ اپنے ایمان کے متعلق ان شاء اللہ نہ کہتا ہو۔
3۔ قبلہ سے انحراف نہ کرے۔
4۔ اگر سبیلین کے سوا اس کے بدن پر نجاست کا اثر ہو تو اس سے وضو کرے۔
5۔ تھوڑے پانی میں اگر نجاست گری ہو تو اس سے وضو نہ کرے۔
ان شرائط کی عدم پابندی کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ شافعی رہ کر احناف کا امام نہیں بن سکتا۔
علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ رد المختار 1/588، شرح مُنیہ سے نقل فرماتے ہیں:
((أما الاقتداء بالمخالف في الفروع كالشفاعي فيجوز ما يعلم منه ما يفسد الصلاة على اعتقاد المتقدي))
”شافعی وغیرہ مخالفین کی اقتداء اس وقت درست سمجھتے ہیں جب امام مقتدی کے خیال اور مذہب کے مطابق کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کی نماز فاسد ہوجائے۔ “
پھر اسی صفحہ پر ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ ” الاهتداء في الاقتداء“ سے نقل فرماتے ہیں:
((ذهب عامة مشايخنا إلى الجواز إذا كان يحتاط في مواضع الخلاف وإلا فلا والمعنى أنه يجوز في المراعي بلاكراهة وفي غيره معها ثم المواضح المهمة للمراعاة أن يتوضأ من الفصد والحجامة والقيء والرعاف ونحو ذلك)) (1/588)
”عام مشائخ حنفیہ شافعی امام کی اقتداء جائز سمجھتے ہیں جب وہ اختلاف کے مقامات میں احتیاط کرے (ورنہ نہیں)احتیاط سے مراد ہے کہ قصد، سنگی اور قے اور نکسیر وغیرہ کے بعد وضو کرے“
علامہ خیر الدین آملی فرماتے ہیں:
((الذی یمیل الیه خاطری القول بعدم الکواهة اذا لم یتحقق منه مفسدة))[1]
[1] ۔ مصدر سابق