کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 331
ہواہے اور منبع کی طہارت پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ میزان شعرانی ملاحظہ فرمائیے۔ [1] وہاں حوض کوثر کی تقسیم اور میزان اعمال کے وقت حضرات ائمہ کرام بڑی توجہ سے میزان کے کام کو ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ پل صراط کے پاس بھی اپنے اتباع کی رفتار کا بڑا غائر مطالعہ فرما رہے ہیں۔ قیامت کے محاسبہ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شعرانی رحمہ اللہ کی نگاہ میں ان حضرات کا موقف بھی انبیاء علیہم السلام کے قریب قریب ہے۔ اس احترام اور حق کے ساتھ اس وابستگی کے باوجود جب اقتداء بالمخالف کا سوال سامنے آیا تو متاخرین فقہاء بڑی احتیاط سے ایک دوسرے کا عمیق محاسبہ فرمانے لگے اور ایک دوسرے کا اس طرح محاسبہ شروع فرمایا جیسے ایک مسلم غیر مسلم کا محاسبہ کرتا ہے۔ حالانکہ ان فروعی اختلافات کے باوجود معاملہ میں کوئی دقّت نہیں تھی۔ شرح صدر سے کہا جاتا کہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بلا تامل ایک دوسرے کی اقتداء کر سکتے ہیں۔ چاروں کو حق پر کہنے کے بعد نہ مقتدی کے خیالات پیش نظر ہونے چاہئیں نہ امام کے۔ ان اختلافات کی موجودگی میں ہم نے ان سب کو حق پر تسلیم کیا ہے۔ لیکن اس میں احتیاط کا پہلو ملاحظہ فرمائیے۔
قاضی خان 592ھ، علامہ حسن بن منصور اور برجندی جو اصحاب ترجیح تسلیم کیے گئے ہیں، فرماتے ہیں :
((أما الاقتداء بشفعوي المذهب قالوا لا بأس به إذا لم يكن متعصبا ولا شاكا في إيمانه ولا منحرفا تحريفا فاحشا عن القبلة ولا شك أنه إذا جاوز المغارب كان فاحشا وأن يكون متوضئا من الخارج النجس من غير سبيلين ولا يتوضأ بالماء القليل الذي وقعت فيه النجاسة. اھ))[2]
شافعی امام کی اقتداء ان شروط کے ساتھ درست ہے:
1۔ متعصّب نہ ہو،
[1] ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:المیزان الکبریٰ للشعرانی(1/152)
[2] ۔ فتاویٰ قاضی خان(1/43)